آواران میں بچی کے ساتھ جنسی زیادتی پر انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی مجرمانہ ہے – بی آر ایس او

163

بلوچ ریپبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی آرگنائزر میران بلوچ نے آواران میں بلوچ بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی پُرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بدترین درندگی اور بلوچ قومی غیرت پر حملہ قرار دیا۔

بی آر ایس او کے مرکزی آرگنائزر نے کہا کہ تین ہفتے قبل بلوچستان کے ضلع آواران میں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے اسکول میں زیرِ تعلیم ایک بلوچ بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور بچی کے گھر والوں کو خاموش رہنے کی دھمکی دیں۔

انہوں نے کہا کہ جس اسکول میں بلوچ بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا وہ سکول پاکستانی فورسز کے زیرِ دست ہے جہاں استاتذہ کا تعلق بھی پاکستانی سکیورٹی اداروں سے ہے۔ پاکستانی فورسز کی جانب سے خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ بلوچستان میں جو آگ آج لگی ہے اس کے پھیچے بھی پاکستانی فورسز کی جنسی درندگی شامل ہے، جب ڈیرہ بگٹی میں ایک خاتون ڈاکٹر کو پاکستانی آرمی کے اہلکاروں کی جانب سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جس پر بلوچ رہنما شہید نواب اکبر خان بگٹی نے بھر پور مزاحمت کیں جبکہ مشرقی پاکستان (بنگلا دیش) میں پاکستانی آرمی کی جنسی درندگی کی داستانیں آج کتابوں کی زینت بن چکی ہیں۔

میران بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی درندگی پر خاموش پاکستانی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے اداروں کی داستانیں مستقبل قریب میں کتابوں کی زینت بن جائیں گے کہ کس طرح ان لوگوں نے بلوچستان قوم کی نسل کشی پر خاموشی کا لبادہ اوڑھے رکھا اور تاریخ میں ان کرداروں کو ہمیشہ بُرے الفاظ میں یاد رکھا جائیگا۔