ریحان مادروطن کا فرزند – شہیک بلوچ

462

ریحان مادروطن کا فرزند

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ریحان کون تھا؟ کیا ریحان محض استاد اسلم کا فرزند تھا؟ کیا یہی ایک بات ہے جو ریحان کے کردار کو اس قدر اساطیری بنا کر رکھ دیتی ہے؟ ریحان کی اپنی ذات بھی تو تھی، اپنی زندگی، اپنے تجربات، اپنا شعور و فکر بچپن میں ماں کی لوری سے لے کر ایک عظیم فکر کے فضا میں پرورش اور استاد کی عملی زندگی، تکالیف سے بھرپور زندگی نے ریحان کے ذہن پر کونسے اثرات مرتب کیئے تھے؟

ریحان نے آخر کیوں ایک ایسا فیصلہ لیا جہاں وہ دیگر ہم عمر نوجوانوں کی طرح بے پرواہ رہ سکتا تھا، جہاں وہ زندگی کی دیگر لذتوں پر زیادہ شدت سے توجہ مرکوز رکھ سکتا تھا۔ منگنی ہونے کے باوجود وہ گھر بسانے کے خیال سے خود کو کیسے آزاد کر پایا؟

ریحان کی تربیت اپنی جگہ لیکن ریحان بذات خود بھی اس دھرتی کے دکھ کو محسوس کرتے کرتے ایک عظیم انقلابی کردار بن چکا تھا۔ وہ استاد کی تکالیف کا سبب سمجھ چکا تھا کہ جب تک غلامی کی لعنت رہیگی استاد جیسے عظیم انسانوں کے حصے میں ان تکالیف کے علاوہ کچھ بھی نہیں آئے گا اور ایسے کردار پھر ہر طرح کی تکالیف کے لیے اپنا سینہ پیش کرنے سے پیچھے نہیں ہونگے۔

استاد اور ریحان جان عام زندگی کے معموملات پر الجھنے کی بجائے تحریک کی ترجیحات پر زیادہ غور و فکر کرتے ہوئے عمل کرتے۔ اس امر کو سمجھنا ضروری ہے کہ ریحان و استاد جان کے درمیان رشتہ روایتی باپ و بیٹے کا نہیں بلکہ دو ہم فکر انقلابیوں کا تھا۔ استاد نے ریحان کی سیاسی تربیت ضرور کی لیکن اس پر کبھی حاوی ہونے کی کوشش نہیں کی اور نا ہی فدائی حملے کا فیصلہ استاد نے اپنی طرف سے کیا بلکہ جب ریحان فکری طور پر اس حد تک پختہ تھا کہ اس نے خود کو فدائی حملے کے لیئے پیش کیا تو یہاں ایک عظیم انقلابی کردار نے روایتی باپ بننے کے بجائے انقلاب کا حق ادا کرتے ہوئے اس شعوری فیصلے کو تسلیم کرلیا اور اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔

اس بات کو سمجھنے سے قاصر کچھ دوستوں نے نہایت گھٹیا انداز میں استاد پر الزامات عائد کیئے کہ استاد نے اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لیے ریحان کو قربان کیا لیکن افسوس وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش سے ہی محروم ہیں کہ ایک باپ اپنے بیٹے کی قربانی پر کیسے قد بڑھانے کا سوچ بھی سکتا ہے؟

استاد کا جرم فقط اتنا ہے کہ وہ ایک روایتی باپ بن کر جذبات کی رو میں نہ بہہ سکا بلکہ اس نے اپنی اولاد کا اس کے شعوری فیصلے میں ساتھ دیا۔ جہدکاروں کی جانب سے ہزار ہا بار استاد کو یہ کہنا کہ آپ اپنے فرزند کو نہیں بلکہ کسی اور کو یہ ذمہ داری سونپیں لیکن استاد یہی کہتے کہ “جب میں اپنے اولاد کو اس راہ پر نہیں روانہ کرسکتا تو کسی اور بلوچ فرزند کو کیسے بھیج سکتا ہوں؟”
“اسے مت روکو۔” حالانکہ ایک طویل فہرست میں بلوچ فرزند تیار تھے لیکن ریحان سرفہرست تھا۔ یہ فیصلہ ریحان کا تھا استاد نے اس کی مخالفت نہیں کی اور قربانیوں کی ایک نئی داستان کا آغاز ہوا۔

ریحان کو قومی بیرک پہنا کر رخصت کیا گیا، لمہ یاسمین نے بھی اسے پرعزم طریقے سے رخصت کیا۔ ریحان دھرتی پر مٹ کر امر ہوگیا اور بلوچ تحریک میں ایک نیا جذبہ پیدا ہوا۔

شدید نفسیاتی بحران سے نکلنے میں اس قربانی نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ استاد مزید پرعزم ہوکر رہبری کرنے لگے۔ اب تحریک میں منظر نامہ بدل گیا، ریحان کی قربانی نے جھنجوڑ کر رکھ دیا اور تمام ہم فکر دوست تحریک کی از سر نو صف بندی پر توجہ مرکوز کرنے لگے۔ ریحان کے بعد کراچی میں چینی کونصلیٹ پر فدائی حملہ ہوا، تین عظیم فرزندوں نے چینی سامراج اور ریاست کی بے حس سماعتوں تک بلوچ جہد کی آواز پہنچا دی۔ استاد نے ان تینوں کو بھی اسی طرح رخصت کیا جس طرح انہوں نے ریحان کو رخصت کیا تھا۔ ان کی ہر قدم پر رہنمائی کی اور آخری لمحات میں بھی جدوجہد کے جاری رکھنے کا عزم دہرایا۔ ان کو کہا کہ “دھرتی کے ہر شہید کو سلام کہنا۔”

کچھ عرصہ بعد استاد خود بھی شہید ہوگئے، استاد کی شہادت کا شدید نفسیاتی طور پر اثر آج بھی ہم محسوس کرتے ہیں،آج بھی استاد کا نام دل میں چبھ سا جاتا ہے آنکھوں سے آنسو رکے نہیں رکتے لیکن استاد کی قربانیوں نے تحریک کو اس حد تک مضبوط بنیادیں فراہم کردی ہیں کہ اب بلوچ جہدکار کسی بھی قیمت پر دستبردار ہونے کی بجائے تحریک کے لیے مر مٹنے کو تیار ہوچکے ہیں۔ استاد کی قربانی نے آج کے بلوچ جدوجہد میں بلوچ کردار کا تعین کردیا ہے۔ وہی رہبر ہوگا جو قربانیوں کے لیئے نہ صرف خود تیار ہوگا بلکہ دیگر جہدکاروں کے شعوری فیصلوں کو نہ صرف تسلیم کریگا بلکہ انہیں مثبت رخ فراہم کریگا۔

ریحان کامیاب ہوا، اس نے اپنا کردار ادا کردیا اور غلامی کے غفلت میں مبتلا ہوئی بیمار زدہ سوچ کو جگا دیا کہ اگر منزل چاہتے ہو تو راستہ یہ ہے۔ استاد نے عمل انگیز کا کردار ادا کردیا اور اپنے رہنما اصول و کردار ہمارے حوالے کردیا۔ جہاں تاریخ جنرل اسلم و بلوچ فدائیں کو کو بری الذمہ ٹہرائے گی وہی پر جو ان شعوری فیصلوں کے خلاف مصلحت پسندی کا شکار ہوئے وہ تاریخ کے قہر سے خود کو محفوظ نہیں رک سکیں گے۔

بلوچ نوجوان ریحان جان کے شعوری فیصلے پر باریک بینی سے غور و فکر کرتے ہوئے اپنا عملی کردار ادا کریں اور خود کو ہر طرح کی قربانی کے لیے تیاررکھیں۔

زندگی میں سب سے زیادہ خوفناک تصور بے مقصد موت کا ہی ہے جبکہ کسی اجتماعی مقصد کے لیے قربان ہونے سے زیادہ خوبصورت کچھ نہیں ہوسکتا۔ آزادی قربانی مانگتی ہے اور مر مٹنے کے فن سے آشنا فرزند ہی آزادی کا ضامن ثابت ہوتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔