ریحان – سارنگ بلوچ

220

ریحان

تحریر: سارنگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ مسلح مزاحمتی تحریک کی مادر وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 11 اگست 2018 کو ہونے والے حملے نے اس جدوجہد میں ایک اہم موڑ پیش کی، جس نے جنگ کو نئی شکل دی۔ گیارہ اگست کو بی ایل اے مجید بریگیڈ کے دوسرے فدائی ریحان اسلم بلوچ تھے۔ ریحان کا قربانی کا سفر اور اس کاز کے لیے ان کی قربانی نے بلوچ مسلح مزاحمتی تحریک میں تیزی لائی و جنگ میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ریحان نے اپنے والد جنرل اسلم بلوچ کو گلا لگا کر رخصت کیا اور اپنی والدہ لمہ یاسمین کو کہا “دل چھوٹا مت کرنا” کہہ کر دشمن پر قہر بننے کے لئے روانہ ہوا۔

ریحان بلوچ محض ایک نام نہیں تھا۔ اس نے آزادی کے لیے اپنے لوگوں کی جدوجہد کے راستہ کو صاف کیا اور آزادی کا جنون اور غلامی سے نجات اُن کے سامنے پیش کیا۔ جنرل اسلم بلوچ کے بیٹے کی حیثیت سے اس کاز سے وابستگی ان کے خون میں شامل تھی۔ ریحان نے اپنی مادر وطن کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے فدائی بننے کا راستہ چنا۔ اس کا فیصلہ ذاتی فائدے یا ذاتی زندگی کا نہیں تھا۔ وہ ایک ایسے کرداع تھے جو اپنے لمہ وطن سے عشق کرتے تھے اور اس جنون میں وہ کسی بھی قربانی دینے کو تیار تھے۔

ایک پُرجوش ویڈیو میں، ریحان کی اپنے والدین کو الوداع کرتے ہوئے، اس کے عزم کی گہرائی کو دیکھا جاسکتا۔ جب وہ اپنی ماں اور باپ کو الوداع کہہ رہا تھا، یہ صرف ایک بیٹا ہی نہیں تھا جو اپنے والدین سے جدا ہوا تھا۔ یہ ایک عاشق وطن تھا جو اپنے لوگوں کی آزادی کو یقینی بنانے کے مشن پر نکل رہا تھا۔ اس الوداع نے نہ صرف ریحان کی بلکہ اس کے خاندان کی قربانیوں کو بھی سمیٹ لیا، جنہوں نے ذاتی مشکلات کے باوجود اس کے مقصد کی حمایت کی۔

ریحان کی سادگی ان کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک تھی۔ اس نے کبھی ذاتی آسائشوں یا مادی فائدے کی طلب نہیں کی۔ اس کی پرورش، مزاحمت کے دور میں گولیوں اور بم دھماکوں کی آوازوں میں ہوئی اور والد جنرل اسلم بلوچ کا نظریہ اور والدہ لمہ یاسمین کے گود میں پلنے والا بچہ ریحان اس مقصد کی اہمیت کے بارے میں گہری سوج و سمجھ پیدا کرتا ہے۔ اس تفہیم نے باپ اور بیٹے کے درمیان ایک ایسا رشتہ قائم کیا جس نے جسمانی فاصلوں کو عبور کیا جو اکثر انہیں الگ کرتا تھا۔

ریحان اسلم بلوچ نے سادہ وضاحتوں کو ٹال دیا۔ اس نے صرف ایک فرد سے زیادہ نمائندگی کی۔ انہوں نے غیر متزلزل عزم اور قربانی کے نظریے کو ایک مختلف انداز میں بیان کیا۔ وہ جبر کے خلاف بلوچ عوام کی جدوجہد کا ناقابل تعریف ثبوت تھے۔ مقصد کے لیے اس کی لگن نے اسے مزاحمت کی علامت بنا دیا، جس نے لاتعداد دوسروں کو جدوجہد میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ ریحان ایک فرد یا ایک فدائی نہیں تھے نہ ہی ریحان صرف گیارہ اگست کو یاد کیے جانے والا ایک رِوایتی چیز ہیں وہ ایک سوچ ایک فکر ایک کردار ہیں جسے ہمیشہ مطلع کرنا ہوگا جسے قریب سے دیکھنا ہوگا جسے سمجھنے کے لئے ایک آزاد سوچ کا مالک بننا ہوگا۔ ریحان کو صرف مطلع یا سوچنا نہیں ہے اُس کے فکر کو آگے لے جاکر تب ہی اُسے سمجھا جا سکتا ہے تبی اُسے قریب سے دیکھا جاسکتا ہے۔

ریحان جان کا فدائی حملہ بلوچ مسلح مزاحمتی تحریک میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ ان کی عمل نے تحریک کو تقویت بخشی، جس کے نتیجے میں اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑنے والوں میں اتحاد اور عزم میں اضافہ ہوا۔ ریحان کی قربانی کے بعد مسلح مزاحمت میں تقویت دیکھنے کو ملا بلوچ مزاحمت پرکھٹن راستوں سے گزار کر ایک نتیجہ خیز موڑ پر پونچھی، ریحان جان کی یاد ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کو ہمت، جزبہ اور قربانی کے لئے کسی حد تک جانے کو تیار کرتی ہے۔

ریحان اسلم بلوچ کی بے لوث لگن اور قربانی نے بلوچ مسلح مزاحمتی تحریک گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ اس کی کہانی کو الہام اور امید کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جو لوگوں کو یاد دلاتا ہے کہ جنگ کے دوران ایک فرد کا عزم تبدیلی کی آگ بھڑکا سکتا ہے۔ ریحان کا نام بلوچستان کے پہاڑوں اور وادیوں میں گونجتا رہتا ہے، جو اپنے ہم وطنوں اور دنیا دونوں کو یاد دلاتا ہے کہ آزادی اور انصاف کی جنگ ہر قربانی کے قابل ہے۔

ریحان کی قربانی ان اقدار (Values)کی پرورش اور تحفظ کی اہمیت کو واضح کرتی ہے جن کے لیے وہ کھڑا تھا۔ جیسا کہ بلوچ مسلح مزاحمتی تحریک جاری ہے، ان کی زندگی کی کہانی آنے والی نسلوں کے لیے ایک روڈ میپ کا کام کرتی رہیگی۔ یہ اتحاد، عزم اور اس سمجھ کی اہمیت پر زور دیتا ہے کہ حقیقی آزادی کے لیے اکثر بے لوثی اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریحان کا راستہ ایک یاد دہانی ہے کہ آزادی کی طرف سفر مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں، اور ہر تعاون، چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، بڑے مقصد کے لیے شمار ہوتا ہے۔

ریحان اسلم بلوچ کی اپنی مادر وطن سے محبت ذاتی خواہشات اور آسائشوں سے بالاتر تھی۔ بلوچستان کے ساتھ ان کا گہرا تعلق محض جغرافیہ سے بالاتر تھا۔ یہ تاریخ، ثقافت اور آزادی کی مشترکہ جدوجہد سے جڑا ایک ناقابل بیان بندھن تھا۔ ریحان کا فدائی بننے کا انتخاب آزادی کے مقصد کے لیے اس کی عشق و عقیدت کا ثبوت تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے جو راستہ چنا ہے وہ مشکل اور پرکھٹن ضرور ہے مگر ایک عظیم راستہ ہے جو بلوچ قوم کو ظلم سے نجات دلا سکتا ہے۔ عظیم تر بھلائی کے لیے اس کی وابستگی کسی خوف یا ہچکچاہٹ سے بالاتر تھی۔ اپنے وطن کے لیے اس کی محبت ایک محرک تھی جو اس کے ہر فیصلے کی رہنمائی کرتی تھی، اور ہم سب کو یاد دلاتی ہی کہ ریحان جان کی قربانی وطن سے عشق ہے جس کا انتخاب ہمیں بھی کرنا ہوگا۔

اپنی آخری ویڈیو میں اپنی ماں اور باپ کو الوداع کرنے کے ریحان کے فیصلے نے اس کی قربانی کی گہرائی کو مزید سمیٹا ہے۔ اپنے پیاروں کو پیچھے چھوڑ کر، اس نے اس تصور کی مثال دی کہ کسی کی قوم سے محبت اکثر ذاتی زندگی کی محبت سے بالاتر ہو سکتی ہے۔ ریحان جان کا ایمان ہے کہ اس کے اعمال اس کے لوگوں کے بہتر مستقبل میں ضرور معاون ثابت ہوگی، جہاں وہ ظلم اور ناانصافی سے آزاد رہ سکتے ہیں۔ ریحان کا عمل ہمیں انفرادی سوچ سے آگے قوم کے اجتماعی سوچ کا پیغام دیتی ہے اور ہمیں اجتماعی سوچ پر عمل کرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ ریحان جان کی قربانی ہمیں ان اقدار (Values)پر غور کرنے کی ترغیب دیتی ہے جن کو ہم عزیز رکھتے ہیں اور وطن کے دفاع کے لیے ہم کسی بھی قربانی کے لئے تیار ہیں۔

ریحان اسلم بلوچ کی کہانی گہری قربانی بے مثال محبت، عزم اور اپنے وطن کے لیے بے پناہ عشق سے عبارت ہے۔ ایک سادہ انسان سے مسلح مزاحمت کی علامت تک ان کا سفر بلوچ عوام کی مجموعی جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے۔ ریحان کی میراث ان لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے جو اپنی وطن کے لیے لڑتے رہتے ہیں، اور اس کی کہانی آنے والی نسلوں کے لیے امید کی کرن اور تحریک کا کام کرتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔