ریکوڈک فیصلے میں اتنی خطیر رقم کی ادائیگی کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں – جام کمال

241
File Photo

 ہرجانے کی جو رقم ہوگی اس کی ادائیگی حکومت بلوچستان کو کرنی ہوگی۔ جس کا حجم بلوچستان کے تین سال کے بجٹ کے برابر ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر جام کمال نے کہا ہے کہ سابق حکومتوں کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں ریکوڈک فیصلے میں اتنی خطیر رقم کی ادائیگی کا ہم سوچھ بھی نہیں سکتے ہیں، عدم ادائیگی کی صورت میں پاکستان کو بین الاقوامی سطح پرنقصان ہوگا۔ سابق حکومتوں کو مختلف خلاف ورزیوں پر مرحلہ وار نوٹس جاری کر کے معاہدے کو منسوخ کیا جاتا توشاید آج بلوچستان کو اتنا نقصان نہیں پہنچتا ان خیالات کااظہار انہوں نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

جام کمال خان کا کہنا تھا کہ ہرجانے کی جو رقم ہوگی اس کی ادائیگی حکومت بلوچستان کو کرنی ہوگی۔ ثالثی فورم کی جانب سے بطور ہرجانہ جس رقم کا تعین کیا گیا ہے ماہرین کے مطابق اگر بلوچستان کے گذشتہ تین چار سال کے دوران بجٹ کے حجم کو دیکھا جائے تو یہ تقریبا ًبلوچستان کے تین سال کے بجٹ کے برابر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان بلوچوں کے تمام وسائل کامقروض ہے- ڈاکٹر اللہ نظر

وزیر اعلی نے کہا کہ بطور ملک ہمیں کہیں سے دو تین ارب ڈالر ملیں تو ہم بہت خوش ہوتے ہیں لیکن ہرجانے کی رقم بہت زیادہ ہے۔وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ اتنی بڑی خطیر رقم کی ادائیگی کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے لیکن اس کی ادائیگی کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدم ادائیگی کی صورت میں پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر نقصان ہوگا اور ملک کے لیے کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس کیس کی فیس بھی ہم دے رہے ہیں اوراب تک حکومت بلوچستان نے فیس کی مد میں ڈھائی سے تین ارب روپے کی ادائیگی کی ہے۔

مزید پڑھیں: ریکوڈک کیس: پاکستان پر 5 ارب 97 کروڑ ڈالر جرمانہ عائد

وزیر اعلیٰ نے سابق حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں معدنیات کے اچھے قواعد و ضوابط ہیں اگر جلد بازی میں کمپنی کے ساتھ معاہدے کو مسترد کرنے کی بجائے اس کو مختلف خلاف ورزیوں پر مرحلہ وار نوٹس جاری کر کے معاہدے کو منسوخ کیا جاتا تو شاید آج بلوچستان کو اتنا نقصان نہ پہنچتا۔

یاد رہے کہ ریکوڈک پر غیر ملکی کمپنیوں نے ایکسپلوریشن کا آغاز 1993 میں کیا تھا لیکن 2011 میں کمپنی کی مائننگ کی لائسنس کے لیے درخواست کی منسوخی تک چند درجن ملازمتوں کے سوا معاشی لحاظ سے بلوچستان کو اس منصوبے سے کوئی فائدہ نہیں ملا تھا۔