ریکوڈک اور بیرک گولڈ کارپوریشن – ٹی بی پی اداریہ

458

ریکوڈک اور بیرک گولڈ کارپوریشن

ٹی بی پی اداریہ

سال دو ہزار بائیس کو بلوچستان حکومت اور کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کارپوریشن کا ریکوڈک پر معاہدہ ہوا، جس کے پچیس فیصد حصص بلوچستان حکومت کو ملنی تھی، جبکہ پچیس فیصد پاکستان کے وفاقی حکومت و پچاس فیصد سرمایہ کاروں (بیرک گولڈ کارپوریشن ) کا حصہ تھا جس کے نتیجے میں بلوچستان حکومت نے ریکوڈک کان کو بیرک گولڈ کارپوریشن کے حوالے کیا ہے۔

ریکوڈک مائن کان کنی کا منصوبہ ہے، جو بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے ریکوڈک میں واقع ہے اور یہ دنیا میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک ہے۔ بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں، سیاسی و مسلح آزادی پسند تنظیمیں و جماعتیں ریکوڈک، سی پیک، سیندک جیسے منصوبوں کو استحصالی منصوبہ قرار دیتے ہیں-

کینیڈا میں بیرک گولڈ کارپوریشن کے شیئر ہولڈر میٹنگ کے دوران انسانی حقوق کے کارکن لطیف جوہر بلوچ نے کارپوریشن کے چیف ایکزیکٹو مارک برسٹو سے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ بیرک گولڈ کارپوریشن نے مقامی افراد کے مرضی کے بغیر پاکستانی حکومت اور فوج کی خواہشات کے بنیاد پر معاہدہ طے کیا ہے جو بلوچستان میں مزید فوجی کاروائیوں اور مقامی افراد کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا سبب بنے گا لیکن بیرک گولڈ کارپوریشن کے سی ای او نے اُن کے خدشات دور کرنے کے بجائے حقائق کو جھٹلاتے ہوئے کہا کہ وہ بیرک گولڈ کارپوریشن اور بلوچستان حکومت کے درمیان معاہدے کے حوالے سے جھوٹ بول رہے ہیں۔

بلوچستان کی مخدوش حالات کی وجہ سے عالمی کمپنیاں، چین اور دوسرے ممالک بلوچستان میں اربوں ڈالر کے منصوبوں کی سیکیورٹی کے بارے میں خدشات کا اظہار کرچکے ہیں اور بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نے بھی گزشتہ سال اپنے بیان میں بیرک گولڈ کارپوریشن کو اس معاہدے کے حوالے سے تنبیہ کیا تھا جبکہ بلوچ مسلح تنظیمیں غیر ملکی سرمایہ کاروں اور ممالک کو متنبہہ کرتے رہے ہیں کہ وہ بلوچستان میں استحصالی منصوبوں میں پاکستان کا ساتھ نہ دیں۔

بلوچ قوم کے خدشات کو دور کئے بغیر اور براہ راست بلوچ قوم کے نمائندہ اداروں کی رضامندی کے بغیر بلوچستان کے جنگ زدہ حالات میں ان منصوبوں کو مکمل کرنا مشکل ہوگا۔ بیرک گولڈ کارپوریشن سمیت عالمی کمپنیوں اور ممالک کو بلوچ قوم کے خدشات دور کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے اور براہ راست بات چیت کے لئے اقدام اٹھانی چاہیئے تاکہ یہ منصوبہ خون خرابے کے بجائے ترقی کا وسیلہ بن سکے۔