خوش نصیب ہیں کہ ہمیں جنرل اسلم کی نگرانی، شفقت اور اپناپن نصیب ہوا -صوفی شاہ عنایت

498

گذشتہ پندرہ، سترہ سالوں سے استاد اسلم بلوچ اور ہمارے بیچ ایک دوست، ساتھی اور بھائی جیسے رشتے رہے ہیں۔ جس رشتے کی بنیاد ناقابل تسخیر اور اٹوٹ فکری، نظریاتی اور مزاحمتی ہے۔ مجھے فخر ہے کہ وہ رشتہ استاد سے پہلے دن سے لیکر شہادت کے دن تک قائم دائم اور برقرار رہا۔

ان خیالات کا اظہار سندھ تحریک آزادی کے رہنما  سندھو دیش ریولووشنری آرمی کے کمانڈر صوفی شاہ عنایت نے بلوچ لبریشن آرمی کے رہنما جنرل اسلم بلوچ کے شہادت کے حوالے سے اپنے خصوصی پیغام میں کیا ۔

انہوں نے کہا کہ قومیں جب دائمی غلامی کے قید خانوں میں قید ہوجاتی ہیں تو ان کی نجات کے لیے سینکڑوں، ہزاروں سالوں کے بعد کئی کردار اور سچے عاشق جنم لیتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی عمل ہوتا ہے اور تاریخ اپنی کوکھ کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے ایسے کرداروں کو جنم دیتی رہتی ہے۔ جن کے لیے اول اور آخر صرف اور صرف اپنا مادر وطن ہی ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ گذارے ہوئے سارے عرصے کے دوران استاد اسلم مجھے بھی اپنے جوہر میں ایک ایسا ہی شاندار اور باوقار کردار نظر آیا۔

انہوں نے کہا آج جب پاکستانی پنجابی ریاست اپنی پوری وحشت اور دہشت کے ساتھ بلوچ اور سندھی قوم کا سیاسی اور معاشی قتل عام کررہی ہے اور چائنا جیسا بدمعاش ملک اس خطے کے اندر سیاسی، معاشی اور فوجی یلغار کے ذریعے توسیع پسندانہ پالیسیاں نافذ کررہا ہے اور سی پیک جیسے بلوچ اور سندھی قوم کے دشمن منصوبے کے ذریعے گوادر سے لیکر بدین تک سمندری پٹی پر قبضہ کرکے پاکستانی پنجابی ریاست کو آکسیجن فراہم کرکے اس کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہا ہے، عین اسی وقت استاد اسلم بلوچ اپنی مدبرانہ سوچ، لائن اور جنگی حکمت عملی کے ذریعے اپنے نوجوان بیٹے شہید ریحان بلوچ اور دوسرے نوجوان فدائین ساتھیوں کے ہاتھوں کامیاب حملے کراکے بلوچستان کا مقدمہ عالمی برادری اور میڈیا کے سامنے رکھنے میں کامیاب ہوا اور اپنی بلوچ قوم کے ساتھ سندھی قوم کے نوجوانوں کے لیے بھی ایک لکیر کھینچ کر گیا ہے کہ اس راستے پر چل کر ہی ہم اپنی قومی آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔

سندھ تحریک آزادی کے رہنما نے مزید کہا کہ خوش نصیب ہے بلوچستان کی دھرتی اور بلوچ قوم جس کو استاد جیسا باکردار، باصلاحیت اور قابل، فکری، نظریاتی اور مزاحمتی استاد اور کردار ملا۔ بحیثیت سندھی قوم کے ذمہ دار سربراہ کے ہم بھی مجموعی طور پر قومی تحریک اور بالخصوص مزاحتمی تحریک کے حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ ہمیں بھی فکری، نظریاتی اور مزاحمتی حوالے سے استاد جیسے قابل استاد کی نگرانی، شفقت اور اپناپن نصیب ہوا، اور ہم امید کرتے ہیں کہ ان کی تنظیم بی ایل اے اور ان کے ذمہ دار دوست اور ساتھی اس نگرانی، شفقت اور اپناپن کو بلوچستان اور سندھ کی آزادی تک برقرار رکھیں گے۔
آخر میں ہمارے ایک قومی شاعر کا ایک شعر ، جس کو سائیں جی ایم سید بار بار سنتے تھے وہ شعر میں استاد محترم جنرل اسلم بلوچ کے نام منسوب کرنا چاہتا ہوں
شعر
لیکر جنم بار بار ہم لوٹینگے
محبوب ہم مہران میں ملیں گے
ختم اندھیرا ( غلامی )جب ہوگا ۔
چاند کی چاندنی ( آزادی) میں ملینگے ۔