معدوم کی ہوس ہے، زائل کو ڈھونڈتے ہیں – برزکوہی

670

“معدوم کی ہوس ہے، زائل کو ڈھونڈتے ہیں”

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

میں نے گذشتہ دنوں اپنے ایک کالم میں واضح طور پر کہا تھا کہ جب شہید نواب اکبر خان بگٹی شہید ہوا، تو اس وقت بلوچ قوم اور خاص کر بلوچ نوجوانوں کے دل و دماغ میں وطن و قوم کے حصول کے خاطر جو جذبہ و حوصلہ اور امید کی کرن پیدا ہوا، اسے زائل کرنے کیلئے ریاست پاکستان، ایک طویل المعیاد منصوبے کے تحت اپنے ریاستی مہروں خان آف قلات سیلمان خان، ثناء اللہ زہری، اسلم رئیسانی، نوب شاہوانی، نواب مگسی، اختر مینگل وغیرہ کے ذریعے قلات میں ایک گرینڈ جرگہ منعقد کروایا۔ جرگے میں ایک ڈرامہ پیش کیا کہ بلوچ قومی مسئلے اور بلوچستان اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے کیس کو ہم عالمی عدالت لے جاکر بلوچستان کا مسئلہ حل کردینگے، یعنی بحثیت بلوچ قوم اور بلوچ نوجوان آپ لوگ فی الحال خاموش رہیں اور انتظار کریں۔

اس وقت بھی بی ایس او آزاد نے جرگے کے اندر سخت احتجاج کیا اور یہ موقف ظاہر کیا کہ یہ نوجوانوں کے جذبات سے کھیل کر ان کی جہدوجہد قومی آزادی سے دور کرنے اور توجہ ہٹانے کی ایک ریاستی سازش ہے اور توجہ عالمی عدالت کی طرف کررہے ہیں نہ کہ بلوچ قومی جنگ کی طرف۔ آج وہ حقیقت ثابت ہوگیا، کہاں گیا وہ بلوچ قومی مسئلہ، عالمی عدالت، خود خان آف قلات، نواب مگسی، نواب رئیسانی، نواب شاہوانی، نواب زہری؟ سارے کے سارے اقتدار میں آکر وہی کام بلوچوں کے ساتھ کر رہے ہیں، جو مشرف جام اور گورنر اویس غنی کررہے تھے۔

اس کے بعد قومی آزادی کی سیاسی اور مزاحمتی جہدوجہد کی شدت مسلح کاروائیوں اور دشمن کے خلاف ہنرمندانہ اور مثالی کارنامے ہزاروں بلوچوں کی شہادت و قربانی خاص کر شہید غلام محمد، بالاچ خان، صباء دشتیاری، آغا محمود خان، شہید درویش، شہید امیربخش، غفار لانگو، مجید شہید، ڈاکٹر خالد، سدو مری اور دیگر ہزاروں شہداء کی قربانیوں نے قومی تحریک کو ایک منظم اور موثر رخ دیا اور بلوچ نوجوان، مرد و خواتین پورے خاندان جوق در جوق تحریک میں شامل ہوگئے۔ بلوچ سماج میں تحریک کے حوالے سے ایک نیا جوش و جذبہ اور حوصلہ پیدا ہوگیا۔

لیکن بدقسمتی سے اس وقت یعنی 2012 میں بلوچ قومی تحریک میں باقاعدہ اور منصوبے کے تحت اختلاف، مخالفت اور نفرت پیدا کیا گیا اور اختلافات اور نفرت کو سوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعے اچھالا گیا، حتیٰ کہ نواب خیر بخش مری کی تشکیل کردہ آذادی پسند مسلح تنظیم یوبی اے کے ساتھ باقاعدہ لڑائی کا فیصلہ بھی ہوگیا اور اس آپسی جنگ میں سینکڑوں بے گناہ مری بلوچ، خواتین معصوم بچے اور بزرگ بھی لاپتہ اور شہید ہوگئے اور ان کے گھر بار جلاکر مال مویشیاں چوری ہوگئے۔ خاص طور پر اس آپسی جنگ کے زد میں نواب خیر بخش مری کی قریبی دوست اور بی ایل ایف کے بانی اور سرکردہ 80 سالہ رہنما واجہ رحمدل مری بھی آئے، جو آج تک لاپتہ ہیں یا شہید ہوچکا ہے کچھ پتہ نہیں۔ یعنی قومی تحریک اور قوم کو فائدہ ایک فیصد نہیں ہوا بلکہ نقصان 100 فیصد ہوا اور تمام یعنی 100 فیصد نقصانات کا فائدہ پھر دشمن نے اٹھایا، دشمن نے خوب سے خوب تر فائدہ حاصل کیا، بلوچ سماج اور خاص طور پر بلوچ نواجوانوں میں یعنی وہ نوجوان تحریک کے ساتھ وابستہ ہوتے ہوئے بھی مایوسی، ناامیدی، الجھن اور تذذب کے شکار نظر آرہے تھے۔ باقی مجموعی بلوچ قوم ویسے ہی تحریک سے بدظنی و بددلی کا شکار ہوئے۔

گذشتہ دوسالوں کے دوران اسلم بلوچ کی سربراہی میں مخلص، باعلم اور باشعور دوستوں کی محنت اور خلوص کے بدولت بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر جی کا اشراک عمل، بی ایل اے اور یوبی اے کے آپسی جنگ کا فیصلہ اور مکمل خاتمہ اور بی ایل اے و دیگر آزادی پسند تنظیموں بی ار اے، یوبی اے اور لشکر بلوچستان کے ساتھ تعلقات اور ماحول کی بہتری اور اعتماد کی بحالی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و کمک، ایک بار پھر بلوچ قوم خاص طور پر بلوچ نوجوانوں میں امید اور حوصلے کی ایک کرن پیدا ہوئی۔ وگرنہ باقاعدہ طور تحریک میں بیوروکریٹک سوچ، پیداگیری، موقع پرستی، ویزہ پرستی، خود غرضی اور خوف و لالچ عام ہوتی جارہی تھی اور قومی تحریک سے بس اپنے ذاتی، گھریلو، خاندانی کام اور مفاد نکالو، کھاؤ، پیو، سوجاؤ والے رجحانات اور سوچ کافی حدتک پروان چڑھتے جارہے تھے، جو ایک تاریخی اور قومی المیے سے کم نہیں تھا۔

لیکن 11 اگست کو بی ایل اے مجید فدائین بیرگیڈ کے جانثار فدائی ریحان بلوچ نے دالبندین میں چینی سامراجوں پر حملہ کرکے بلوچ قومی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی، اپنے لہو، فیصلے، عمل اور تاریخی کردار سے پوری بلوچ قوم، خاص طور پر نوجوانوں میں ایک بڑا جوش و جذبہ، امید اور حوصلہ پیدا ہوگیا، جو مجموعی قومی تحریک کے حوالے سے ایک اہم اور بہت بڑا پیش رفت ہے۔

میں نے پہلے کہا تھا کہ مجھے خوف ہے کہ اس ماحول کو پراگندہ اور ریحان کی قربانی اور فیصلے کو زائل اور متنازعہ کرنے کی باقاعدہ کوشش ہوگی تاکہ ایک بار پھر دوبارہ بلوچ قوم خاص طور پر بلوچ نوجوانوں میں مایوسی، الجھن، ناامیدی اور دشمن کو دوبارہ موقع اور فائدہ حاصل ہو۔

ایک ایسی سعی لاحاصل ہوئی بھی، یعنی ریحان کے شہادت کے فوراً بعد دو تین مسلسل فیک اور جانے پہچانے آئی ڈیز کے ذریعے سوشل میڈیا میں الزام تراشی اور پروپگنڈے کے ذریعے ریاستی بیانیئے کو تقویت دینے کی کوشش شروع ہوئی اور 5 دن بعدوہی تمام پروپگینڈے، ریاستی بیانیئے کی نقل اور تحریک مخالف لب و لہجہ ترجمان آزاد بلوچ کے نام سے ہوبہو شائع ہوجاتا ہے، قابلِ غور بات یہ ہے کہ ریحان کی قربانی اور اس بڑے کارنامے کو متنازعہ کرنے کی ناکام کوشش کرنا آخر کس لیئے؟ انا، ضد، عدم برداشت، ہضم نہ ہونا، کسی اور کو خوش کرنا، کسی کو یقین دہانی کرانا، صفائی پیش کرنا، اپنے آپ کو کسی کے سامنے چینیوں کے قتل میں بیگناہ ثابت کرنا یا کوئی اور ایجنڈہ؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نام نہاد معطل معطل والے ڈرامہ کو ابھی میرے خیال میں پورا ایک سال ہونے والا ہے، اس پورے ایک سال میں بی ایل اے جئیند بلوچ کے نام سے مکران، جھالاوان، رخشان، بولان، کاہان میں مختلف کاروائی کرکے قبول کرتا آرہا ہے، ان کے وڈیو اور بیانات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ دوسری طرف یوبی اے کے ساتھ آپسی جنگ کا خاتمہ جئیند بلوچ اور یوبی اے کا مشترکہ بیان بھی سامنے آیا، اس دوران بی ایل اے کے اعلیٰ کمانڈر اسلم بلوچ کے مختلف وڈیو پیغام و انٹرویو بھی سامنے آئے لیکن خود ساختہ ہائی کمان یعنی حیربیار مری کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن 11 اگست کو ریحان بلوچ کا چینیوں پر فدائی حملہ کیوں ناقابل برداشت اور سیخ ہونے والی عمل ثابت ہوا؟ لندن میں لگژری گاڑی سے اتر کر خوشگوار اور سہانے موسم و ماحول میں چینی سفارت خانے کے سامنے آکر جھنڈا اٹھانے کو بہادری، قابل فخر اور بڑا کارنامہ قرار دینا اور ریحان جان کی ماں کے دل پر اس وقت کیا گذر رہی ہوگی، جب وہ اپنے لختِ جگر پر وہی قومی بیرک لپیٹ کر اس کو شہادت کے لیئے روانہ کرتی ہے اور خود ریحان وہی بیرک پھر اپنے جسم پر لپیٹ کر بارود سے بھری گاڑی میں سوار ہوکر چینیوں پر حملہ کرنے کے لیئے روانہ ہوتا ہے اور حملہ کرتا ہے، اس عمل سے برملا لاتعلقی اور بیرک کو لندن کے خوشگوار ماحول میں 5 منٹ لہرانا بہادری، قابل فخر اور بغلیں بجانا کس سوچ و ذہنیت کی سطح کی عکاسی کرتا ہے؟

میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، آج بھی کہوں گا یہ تمام اختلافات و تضادات ضرور کسی نہ کسی حد تک مجموعی تحریک میں کسی نا کسی سطح پرموجود تھے اور ہیں، یہ تو تحاریک کا حصہ ہوتے ہیں، یہ کبھی ختم نہیں ہونگے بلکہ کم ہوسکتے ہیں، لیکن ان کو سوشل میڈیا اور اخبارات میں اٹھانا، اچھالنا وہ بھی پروپگنڈہ اور کردار کشی کی شکل میں اور خاص طور پر یوبی اے کے ساتھ آپسی لڑائی کی حد تک لیجانا، اس کا پس منظر اور اصل حقیقت اتنا سیدھا سادہ نہیں، جتنا کچھ لوگ سمجھتے ہیں۔ یہ سب کچھ نادانی، بے وقوفی و احمقی میں نہیں ہورہے ہیں بلکہ باقاعدہ ایک تسلسل اور پلاننگ کے ساتھ ہورہے ہیں اور جو لوگ اوپر سے نیچے تک اس عمل کا حصہ ہیں، وہ بھی بالکل ناسمجھی، لاشعوری، نادانی، مجبوری، بے بسی اور لاچاری کے تحت استعمال نہیں ہورہے ہیں بلکہ ہر ایک کا اپنا ایجنڈہ ہوتے ہوئے ایک مشترکہ ایجنڈے پر متفق سب کے سب اس عمل کا حصہ ہیں۔

میں نے ہر وقت کہا تھا کہ وقت خود ثابت کریگا، تو اعتراض ہورہا تھا کونسا وقت اور کس وقت؟ کیا ابھی بھی وقت نے ثابت نہیں کیا اور نہیں کررہا ہے؟ آج تمام آزادی پسند جہدکاروں کی اکثریت کی رائے کیا ہے؟ حمایت اور ہمدردی کہاں پر ہیں؟ بلوچ قوم میں آراء کیا ہیں؟ یہ ہے وقت جو سب کچھ ثابت کررہا ہے اور مزید بھی ثابت کرتا رہے گا۔ ہاں وہ لوگ جو شعوری ایجنڈے کا حصہ ہیں، پھر ان کے لیئے،کوئی بھی آیا وقت، وقت نہیں ہوگا، بس ان کے لیے سب برابر ہے۔

ریحان بلوچ کی قربانی تاریخ میں کسی کے حمایت، مخالفت، لاتعلقی یا عدم برداشت سے نہ کم ہوگی اور نہ گم ہوگی اور نہ ہی متنازعہ ہوسکتی ہے، البتہ یہ اپنے ایجنڈے کے تحت ریحان کی قربانی کے بعد ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرکے وقتی طور پر نوجوانوں میں مایوسی اور الجھن پیدا کرنا چاہتے ہیں، تاکہ بلوچ نوجوانوں کا رخ قومی جنگ، قومی ذمہ داریوں اور ریحان کے عمل کی طرف نہ ہو اور مزید اور ریحان پیدا نہ ہوں۔

میرے خیال میں ریحان جان وہ پہلا فدائی ہے، جس کے بارے میں ابتک دشمن پاکستان نے اب تک یہ نہیں کہا ہے کہ وہ نوجوان غیر شعوری طور پر استعمال ہوا، اسکے ساتھ ساتھ پاکستانی پارٹیاں بی این پی و نیشل پارٹی، جمیعت، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی وغیرہ تک بھی یہ نہیں کہہ چکے ہیں کہ یہ نوجوانوں کو استعمال کررہے ہیں بلکہ خود ساختہ ہائی کمان حیربیار مری نے علی الاعلان یہ کہا کہ اسلم بلوچ نے اپنے لختِ جگر کو ذاتئ مفاد کے لیئے استعمال کیا، یعنی استعمال لفظ ہی فدائی کے کردار و عمل کو متنازع اور مشکوک کرنے کی ناکام کوشش ہے، تاکہ بلوچ نوجوان اس رستے پر جانے سے گریز کریں۔

کیا کوئی اپنے لختِ جگر کو بلا وجہ ایک تھپڑ تک مار سکتا ہے؟ برداشت کرسکتا ہے لیکن ایک ماں اور باپ اپنے لختِ جگر کو بارود سے بھری گاڑی میں بٹھا کر کہتے ہیں، ہم آپ کو وطن کے لیئے قربان کرتے ہیں، پھر اس تاریخی عمل کو استعمال کا نام دینا، وہ بھی ذاتی مفاد کے لیئے، کیا یہ صاف ظاہر دشمن کا موقف اور بیانیہ نہیں ہے؟

آج اگر کوئی اپنے آنکھوں اور کانوں کو بند کرکے کچھ نہیں سمجھتا اور محسوس نہیں کرتا، پھر وہ کبھی بھی نہ سمجھے گا نہ ہی محسوس کریگا بلکہ اس کا اپنا شعور اور سوچ یہی ہے، وہ دانستہ اور شعوری طور پر سب کچھ جان کر اور سوچ سمجھ کر ایسے لوگوں کے ساتھ ہیں اور آخر تک ساتھ رہینگے تو ایسے لوگوں سے تبدیلی اور بہتری کی توقع کرنا یا گلہ کرنا احمقی اور بے وقوفی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

میرے کہنا کا مقصدِ محض یہ ہے کہ خدارا! ریحان جان کی قربانی کو کج بحثی، غیر ضروری بحث در بحث کے نظر کرنے سے گریز کریں بلکہ تمام تر توجہ اپنے کام اور مقصد پر لگائیں، شب و روز سوشل میڈیا کا کیڑا بن جانا اصل کام اور مقصد سے توجہ ہٹانے کی ایک موذی مرض ہے، جب ہم اس مرض کا شکار ہونگے جس طریقے سے ہمیں ریحان اور دیگر شہداء کی قربانیوں سے مجموعی طور پر تحریک کے لیئے فاہدہ حاصل کرنا ہوگا، وہ کبھی حاصل نہیں ہونگے، شاید کم سطح پر ہی ہو لیکن زیادہ اور مکمل نہیں ہوگا۔

سوشل میڈیا کا ایک حد اور مثبت طریقے سے استعمال صحیح اور فائدہ مند ہے لیکن انتہاء اور کج بحثی کی حد تک جانا تحریک کے لیئے سودمند نہیں، بلکہ انتہائی نقصاندہ ہے، جس سے گریز کرنا ہر جہدکار کا فرض ہے اگر کسی کو ریحان کے لہو کا احساس ہے۔

دی بلوچستاں پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔