غزنی حملے کےلئے افغانستان اندرونی معاملات کا جائزہ لے : پاکستان آرمی

228

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے افغانستان کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ  غزنی میں دہشت گردوں کے حملے میں پاکستان کی جانب سے کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی، ساتھ ہی انہوں نے حملے کی وجوہات جاننے کے لیے اندورنی معاملات کا جائزہ لینے کا بھی مشورہ دے دیا۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’چیف آف آرمی اسٹاف نے زور دیا ہے کہ افغانستان میں کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی میں پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے اور افغانستان کو اپنے ملک کے اندر موجود مسائل کی طرف نظر کرنے کی ضرورت ہے‘۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے حملے کی ذمہ داری پاکستانی شہری پر عائد کی تھی۔

 اشرف غنی نے کہا تھا کہ ’آرمی چیف جنرل قمرباوجوہ نے دستاویزات پر دستخط کیے اور مجھے متعدد مرتبہ فون پر کہا تھا کہ الیکشن کے بعد وہ اس مسئلے پر توجہ دیں گے، لیکن اب مجھے جواب چاہیے کہ دہشت گرد کہاں سے آئے اور انہیں ہسپتالوں میں کیوں طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہے‘۔

واضح رہے کہ گذ شتہ ہفتہ ایک ہزار طالبان عسکریت پسند شہر میں داخل ہوئے اور 5 دن بعد پسپائی اختیار کی۔

افغانستان کے وزیرِ دفاع طارق شاہ اور دیگراعلیٰ افسران نے الزام لگایا تھا کہ بیرونی عناصر بشمول پاکستانی عناصر نے طالبان کو مدد فراہم کی تھی۔

آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ ’افغانستان میں متعدد پاکستانی اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر چھوٹے کاروبار اور ملازمتیں کررہے ہیں اور اکثر و بیشتر وہ بھی دہشت گردی کا نشانہ بن جاتے ہیں، تاہم متاثرین کو دہشت گرد قرار دینا مناسب نہیں ہے‘۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ’ٹی ٹی پی کے مختلف حلقے افغانستان کے اندر افغان شناخت کے حامل زخمی یا مردہ پاکستان میں علاج کے لیے منتقل کیے جاتے ہیں، افغان پناہ گزین اور ان کے رشتے دار بھی اسی طرح کے امور میں شامل ہیں‘۔

اس دوران، دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہاکہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے بھی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خدمات کی سراہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’فروری 2018 میں سیکیورٹی کونسل کی 21 ویں رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ پاکستانی آرمی کے آپریشن کے باعث داعش کو علاقے میں اپنی انتظامی امور چلانے کی جگہ نہیں مل سکی۔