عثمان بزدار اسٹبلشمنٹ کی کٹھ پُتلی – نوروز لاشاری

518

عثمان بزدار اسٹبلشمنٹ کی کٹھ پُتلی

نوروز لاشاری

دی بلوچستان پوسٹ

کچھ روز پہلے مشرقی بلوچستان سے ایک شخص جو پاکستانی الیکشن میں کامیابی کے بعد صوبائی سیٹ پر کامیاب ہوئے اور ان کو وزیراعلٰی کا عہدہ عطا کیا گیا اور سوشل میڈیا اور پاکستانی میڈیا پر بڑی دھوم دھام سے بتایا جارہا ہے کہ ایک بلوچ کو سیٹ دی گئی۔ کیا کسی نے اتنا سوچنے کی جسارت کی کہ یہ عہدہ کیوں بخشا گیا؟

عثمان بزدار جو مشرقی بلوچستان کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے پہاڑی علاقے بارتھی سے تعلق رکھتے ہیں، وہ بزدار قبیلے کے تمندار میر و معتبر ہیں، ان کے والد محترم صاحب تین بار صوبائی سیٹ پر کامیاب ہوچکے ہیں، مگر علاقے کے لوگ ابھی تک جانوروں کے مساوی زندگی گزار رہے ہیں۔ عثمان بزدار صاحب تحصیل ناظم رہے ہیں، پر علاقہ کےلیئے کچھ نا کر پائے یا کچھ کرنے نہیں دیا گیا یا جان بوجھ کر نہیں کیا۔ اگر کچھ کر نہیں پائے تو مطلب یہ نا اہل شخص ہیں اور اگر کرنے نہیں دیا یا کیا نہیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ کمزور و لاچارہیں۔

اس کے بعد دیکھا جائے تو عثمان بزدار جو بلوچی بولتے ہیں، پھر بھی اپنی قومی شناخت کی سودا بازی کرچکے ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت انکا کچھ ماہ پہلے سرائیکی صوبے کی حمایت کا اعلان کرنا تھا۔ یہ صوبہ اسٹبلشمنٹ، بلوچ قوم کو زبان کی بنیاد پر تقسیم اور شناخت کو ختم کرنے کی غرض سے بنا رہی ہے۔

عثمان بزدار کے تمن بزدار میں سے یورینیم کی لوٹ مار جاری ہے، یہی یورینیم کینسر و دوسری بیماریوں کا باعث بن رہا ہے، اس لوٹ مار کے بارے میں عثمان بزدار نے ایک حرف ادا نہیں کیا اور نا ہی کبھی کینسر جیسے موذی مرض کےلیئے ایک حرف ادا کیا نا ہی انکی جانب سے کینسر ہسپتال کی ڈیمانڈ کی گئی۔

اسٹبلشمنٹ اس شخص کو وزیراعلٰیٰ تک اس لیے لائی تاکہ بلوچ آبادیوں کی بدحالی اور لاچاری کو یہ کہہ کر ٹالا جاسکے کہ اب تمہارا اپنا ہی سردار آ چکا ہے حالانکہ بلوچ عوام اور اسٹبلشمنٹ کو پچھلی کارکردگی اچھے سے معلوم ہے۔ یہ سب عمل کوئلہ، جپسم، تیل، گیس اور یورینیم کی لوٹ مار کو مزید بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔

اسٹبلشمنٹ ان علاقوں کو سرائیکی صوبے میں شامل کرکے بلوچ شناخت کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے اور عثمان بزدار کو اس کھیل کا مرکزی کردار بناکر عوام کے سامنے رکھا جائے گا اور بلوچ عوام کو کہا جائے گا آپ کا اپنا بندہ فیصلہ کرے گا اور عثمان بزدار وہی فیصلہ کرے گا جو اسٹبلشمنٹ کہے گی۔

نیز ضرورت اس امر کی ہے بلوچ نوجوان اپنی شناخت بیچنے والے شخص سے مزید امید لگانے کی بجائے اپنی شناخت و قوم کی خاطر سوچ و بچار و کتاب سے دوستی بڑھائیں تاکہ ان سازشوں کو شکست دی جاسکے۔