گنجل معاف کرنا یہ غلامی ہے – محراب بلوچ

652

گنجل معاف کرنا یہ غلامی ہے

محراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

جب تک بلوچ قوم سامراجی چنگل سے آزاد نہ ہوجائے، ایک بہن گنجل نہیں سینکڑوں گنجل اس دنیا سے بھرے دردوں کے ساتھ رخصت ہوتے رہیں گے۔ تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائیں جن اقوام کے فرزندوں نے اپنی قومی بقاء، زبان، کلچر، ثقافت، تہذیب و تمدن کی حفاظت نہیں کی اپنی مادروطن کی سنبھالنے میں ناکام رہے، انکے ساتھ یہی ہواـ

سامراج اپنی پوری قوت کے ساتھ غلام قوم کے سامنے رکاوٹ حائل کرکے انہیں آزادانہ زندگی کے حق سے محروم کرتا رہا۔ غلام کے سوچ کو ایسے ہتھکنڈوں کے ذریعے دباتا رہاتاکہ وہ آزادی کا خواب تک نہیں دیکھ پائے. اگر سامراجی مظالم کی داستان کا مطالعہ کیا جائے، تو غلام قوموں کی زندگی میں آزاد ی نامی شے کی گنجائش موجود نہیں اور ناہی وہ کوئی رائے آزدانہ دے سکتی یا رکھ سکتی ہے۔ سامراج کی جانب سےغلام قوموں کو یہی پیغام یا تاثر دیاجاتا ہے کہ غلام کو اللہ پاک نے یہی زندگی عطا کی ہے کہ وہ غلام قوم ہونے کے ناطے سامراج کی فرمانبرداری کرے۔ کیونکہ اس کا مشغلہ اور روز مرہ زندگی حتٰی کہ خمیر میں یہی شامل ہے۔ صرف حاکموں کی پیروی کرے. یہی درس و تدریس اور واعظ قدم قدم پر غلاموں کو احساس دلانے کیلئے اس کی روزہ مرہ زندگی میں رخنہ ڈالنے کیلئے تواتر سے کیا جاتاہے۔

اگر ہم سیاہ فاموں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں یہی ثبوت ملتا ہے کہ غلام ماؤں کے لخت جگروں کو ان کے آنکھوں کے سامنے سامراج نے بزور طاقت تذلیل کا نشانہ بنایا۔ .بچوں، جوان لڑکے لڑکیوں، سمیت بیوی اور شوہر، بہن، بھائیوں کو اُٹھا کر غلام بنایا گیا۔

انہیں مختلف بیوپاریوں اور کار خانہ داروں کے ہاتھوں بیچ کر غلامی کے چکی میں پیسا گیا، بعد میں مالک نے اپنے مرضی سے انہیں جہاں چاہا وہیں آگ میں جھونک دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ آ قاوں نے غلاموں پر ظلم کے وہ پہاڑ گرائے کہ سن کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ غلام رکھنے کے بعد ان کو یہ حق تک نہ تھا کہ اپنے پیاروں سے ملاقات کرسکیں۔

بچے کو باپ، بھائی کو بھائی سے ملنے کی خواہش تک پوری نہیں کی جاتی۔ الغرض غلاموں کی ایک آسان مانگ بھی پوری نہیں کی جاتی وہ مانگ یہ تھے کہ ہم اپنے پیاروں کے ساتھ ایک جگہ میں کام کریں۔ پھر بھی یہ مانگ خاک میں مل جاتے تھےـ اگر کوئی ایک بار اپنے پیاروں سے بچھڑ گیا، پھر دوبارہ ملنا ناممکن ہوتا تھا، سیاہ فام صرف سفید حاکموں کی ملکیت ہوجاتے تھے۔

افریقی سیاہ فام لوگ نیم مردہ زندگی بیتاتے تھے، آخر کار سیاہ فاموں نے غلامی کی ذلت سے تنگ آکر بغاوت کی اغاز کیا، انہی غلاموں نے تشدد، اذیت پہلے دیکھے تھےم اب تشدد سے ڈرنے والے نہیں تھے۔ دوسروں کے غلامی کیا کرتے تھے، اذیت کاٹتے تھے سزائیں بھگتتے تھے۔ انہوں نے دو گنا زیادہ تشدد کو اپنی زندگی میں ڈالنے کی دلیرانہ حکمت عملی اپنایا، بغاوت شروع کی۔

کہتے ہیں جب انسان کا احساس جاگ جائے، تو غلامی کی زندگی کو خیرباد کہنے، اپنےعزتِ نفس اور ننگ و ناموس کی حفاظت کی خاطر ہر قسم کے قربانی سے گریز نہیں کرتے۔

سامراج کو سامراجیت بحال کرنے کیلئے تشدد کے سوا اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا، پھر اس ناکامی کے بعد سامراج جاگتے معاشرے میں اپنا جنازہ خود غلاموں کی سرزمین سے اُٹھا کر لے چلنے پر مجبور ہوجاتاہے۔ آج پاکستان کے زیرِ تسلط مقبوضہ بلوچستان میں یہی حال ہے۔ صرف تھوڑا سا فرق ہے، بلوچ فرزندان کو اُٹھا کر لاپتہ کردیتے اور زندانوں میں ڈالتے ہیں۔ اسی طرح بہنوں کے سامنے بھائی کو اُٹھا کر غائب کرتے ہیں، بیوی کے سامنے شوہر کو گُم، گار کرتے ہیں والدین کے سامنے بیٹوں کو آُٹھا کر غائب کرتے ہیں۔

غلامی کی ذلت کی رنگت روز بہ روز پھل پھول رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بی بی گنجل جیسی بیٹی اور بہنیں اپنے پیاروں کی جدائی برداشت نہ کرتے ہوئے، موت کو بانہوں میں لیکر ابدی نیند سورہی ہیں۔ لیکن بہت سے گنجل زندگی کے غموں میں ڈھل کر اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ اس بات سے مجھے درد ہے، مجھے صدمہ پہنچ رہا ہے، اب تک بہت سے بےضمیر بلوچوں کا احساس نہیں جاگا۔ جانتا ہوں یہ ذلت کی زندگی دائمی نہیں رہتا، نوری نصیر خان چاکر و گہرام دودامیار جل کی سرزمین پر یہ الم دائمی نہیں رہتا، میں جانتا ہوں دائمی گنجلیں غمِ الم میں زندگی سے دستبردار نہیں ہونگے۔

میں چاہتا تھا گنجل شبیر پُل کے خوابوں کےمعنی بلوچستان کی آزدی اپنی آنکھوں سے دیکھ پاتی، آزادی کی رونق سے لطف اندوز ہوکر اپنے شریکِ حیات، سفر خان کے قربانی کا ثمر خود دیکھ پاتی۔ کاش ایساہوجاتا۔
.
اے میرے ہم وطنو! بلوچستان کے حقیقی فرزندو! غلامی کی ذلت کے خلاف جاگ اُٹھیئے. یہ ظلم صرف گنجل تک محدود نہیں رہیگا اور بھی گنجلیں زندگی میں اپنے پیاروں کے غموں کے ساتھ رخصت ہونگے۔