وانا میں پشتون تحفظ موومنٹ پر حملے کے بعد کرفیو نافذ

230

جنوبی وزیرستان کی مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وانا میں پشتون تحفظ موومنٹ کے اراکین پر مسلح افراد کی فائرنگ سے کم سے کم 3 کارکن ہلاک ہوئے ہیں اور متعدد کارکن زخمی ہیں جس کے بعد علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

جنوبی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر وانا میں اتوار کی شب پشتون تحفظ موومنٹ کے سرکردہ رکن علی وزیر کے پیٹرول پمپ پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس کے بعد صورتحال کشیدہ ہو گئی۔

 مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صورتحال کشیدہ ہونے کے سبب شہر میں گذشتہ شب سے کرفیو نافذ ہے۔

اس حملے میں علی وزیر تو محفوظ رہے لیکن مقامی سیاسی انتظامیہ کے اہلکار نے  بتایا کہ مسلح افراد کی فائرنگ سے پشتون تحفظ موؤمنٹ کے 3 کارکن جانبحق ہوئے ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ اس حملے میں متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں اور زخمیوں میں ایک مقامی صحافی نور علی بھی شامل ہیں۔

مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ قبائلی عمائدین پر مشتمل جرگہ آج بلوایا گیا ہے، جس میں موجودہ صورتحال پر بات کی جائے گی۔

قبائلی عوام کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والی تنظیم پی ٹی ایم کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ’امن کمیٹی عین اللہ کے افراد‘ ملوث ہیں۔ مقامی طور پر ان افراد کو ‘گڈ طالبان’ کہا جاتا ہے۔

اس حملے کے بعد پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ طالبان نے علی وزیر اور پی ٹی ایم کے کارکنوں پر فائرنگ کی۔

انھوں نے کہا کہ ‘فائرنگ کے جواب میں جب طالبان پر پتھراؤ کیا گیا تو انھوں نے کیمپ میں پناہ لے لی۔’ انھوں نے کہا کہ ‘پشتون تحفظ موومنٹ نے گذشتہ پانچ ماہ سے آئین کے لیے جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اس عرصے میں ایک روڈ بھی بند نہیں کی، ایک بلب بھی نہیں توڑا لیکن ریاستی اداروں نے ہم پر ظلم کیے۔’

انھوں نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں پشتون عوام سے مطالبہ کیا کہ جب بھی موقع ملے تو اس واقعے کے خلاف احتجاج کریں اور جہاں بھی اقوام متحدہ کے دفاتر ہیں وہاں مظاہرہ کریں کیونکہ حکومت ہماری بات نہیں سنتی ہے۔

ادھر وانا میں اس حملے کے بعد سے حالات کشیدہ ہیں رستم بازار اور عالم مارکیٹ میں پی ٹی ایم کے سرگرم افراد نے امن کمیٹی کے عین اللہ گروپ کے دفتر کا محاصرہ کر لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ‘گڈ طالبان’ کے دفاتر کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔

وانا میں پی ٹی ایم کے اراکین پر اس حملے کے بعد اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں احتجاج ہوا ۔