لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی حالت زار پر افسوس ہوتا ہے، چیف جسٹس

222

کراچی: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ لاپتہ افراد کو میری ایجنسیوں نے نہیں اٹھایا ہوگا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں لاپتہ افراد سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ آئی جی سندھ امجد جاوید اور حساس اداروں کے افسران عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے درخواستیں وصول کرلیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حکم دیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے لاپتا افراد کی معلومات اور بازیابی کے حوالہ سے ترجیحی اقدامات کریں، اس ضمن میں سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو باقاعدہ آگاہ کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے لاپتہ افراد اور ان کے اہل خانہ کی حالت زار پر بہت افسوس ہوتا ہے، صرف جوان نہیں بلکہ57 سال کا بوڑھا شخص بھی لاپتا ہورہا ہے، لوگوں کو یہ پتا چل جائے کہ ان کے پیاروں کے ساتھ حادثہ ہوگیا تو شاید صبر آجائے، اللہ کرے یہ تمام افراد زندہ ہوں، مجھے یقین ہے میری ایجنسیوں نے انہیں نہیں اٹھایا ہوگا۔ اس پر درخواست گزار نے کہا کہ اگر ان اداروں نے نہیں اٹھایا تو تلاش کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔

سماعت سے قبل لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کی بڑی تعداد سپریم کورٹ کے باہر جمع ہوگئی۔ پولیس نے لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو سپریم کورٹ کے اندر جانے سے روک دیا، جس پر مظاہرین نے پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

خواتین اور بچوں سمیت شہریوں نے لاپتہ افراد کی تصاویر کے ہمراہ احتجاج کیا اور اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے دہائیاں دیں۔ لاپتہ افراد کے گھر والے زار و قطار رونے لگے اور فریاد کی کہ اگر ہمارے پیارے مرگئے ہیں تو ہمیں بتایا جائے، ہمارے بچے کئی سال سے لاپتہ ہیں ہمیں ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، ہر انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا، اب ہم کس کے در پر جائیں۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ہر لاپتہ شخص کے ایک ایک رشتے دار کو عدالت میں بلالیا۔ درخواست گزار نیلم نے عدالت کے روبرو پیش ہوکر بتایا کہ اس کے والد 14 ماہ سے لاپتا ہیں۔ اس دوران دیگر خواتین نے زار و قطار رونا شروع کر دیا جس پر کمرہ عدالت میں شور شرابہ اور چیخ و پکار شروع ہوگئی جب کہ ایک خاتون نے روسٹرم پر مکہ بھی مار دیا۔ اہل خانہ نے الزام لگایا کہ ان کے پیارے خفیہ اداروں کے پاس ہیں۔

چیف جسٹس نے شہریوں کو خاموش ہونے کا حکم دیا تاہم وہ خاموش نہیں ہوئے جس پر چیف جسٹس کوئی حکم نامہ جاری کیے بغیر اٹھ کر چلے گئے اور انہوں نے آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو چیمبر میں طلب کرلیا۔ کچھ دیر کے وقفے کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ سماعت شروع کی اور مکہ مارنے والی خاتون کو دوبارہ روسٹرم پر بلا لیا اور غیر مشروط معافی طلب کی، جس پر خاتون نے معافی مانگی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاپتہ افراد کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ کے ساتھ ساتھ ایم آئی، آئی ایس آئی اور آئی بی کے صوبائی سربراہان کو معاملے پر جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس حوالے سے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں لاپتہ افراد کے متعلق تنظیمیں پاکستان اور باہر ممالک میں احتجاج اور مظاہرے کرتے آرہے ہیں۔

لاپتہ افراد کے متعلق تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچستان کے دیگر سیاسی جماعتوں کا دعوہ ہے کہ صرف بلوچستان سے 25 ہزار سے زائد لوگ  لاپتہ ہیں۔

واضح رہے کہ لاپتہ افراد کے متعلق تنظیمیں اور ان کے لواحقین یہ الزام پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں پر عائد کرتی رہی ہیں جبکہ خفیہ ادارے اور فورسز ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔