شہید غلام محمد بلوچ، ایک عظیم رہبر – شوہاز بلوچ

664

شہید غلام محمد بلوچ، ایک عظیم رہبر

تحریر: شوہاز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید غلام محمد وہ واحد بلوچ رہنما ہیں، جو جنگ کو ایک طبقے، یا قبائل سے نکال کر عام بلوچ کے گھر تک پہنچانے کی جدوجہد کرتا ہے، اس دوران وہ کئی مصیبت اور پُر کھٹن حالات کا سامنا کرتا ہے لیکن وہ چلتن پہاڑ کی طرح مضبوطی سے کھڑے رہتے ہیں، ریاستی فوج اور اُن کے ایجنسیوں کی جانب سے شہید غلام محمد کو کئی مرتبہ اغواء کیا گیا، ان پر شدید تشدد کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے موقف سے ہٹ جائیں لیکن شہید غلام محمد قومی آزادی کی خاطر ریاستی تشدد کو قبول کرتے رہے۔

بلوچستان میں ایسے عظیم ہستیوں کی کمی نہیں، جنہوں نے اپنی زندگیاں قومی آزادی کے لیئے وقف کیئے ہوئے ہیں، جنہوں نے قومی آزادی کے اس پر کھٹن سفر کا شعوری طور پر انتخاب کرکے اپنے سارے خواہشات و احساسات مٹا دیئے ہیں، اس راہ کا انتخاب وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں اپنے گلزمین اور مادر وطن سے بے تحاشہ محبت ہوتی ہے انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک واجہ شہید غلام محمد ہیں۔ شہید غلام محمد مند کے علاقے سورو میں واجہ ایوب کے گھر میں ۱ جنوری 1959 کو پیدا ہوئے۔ وہ بنیادی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کرتا ہے، اور مزید تعلیم کے لیئے کراچی جاتے ہیں اور وہیں سے گریجویٹ کرتے ہیں۔ شہید اپنا سیاسی سفر1974 میں بی ایس او کے فلیٹ فارم سے شروع کرتے ہیں۔

اپنے قائدانہ صلاحیتوں کے بدولت 1990 میں بی ایس او کاچیئرمین مقرر ہوتا ہے ،اس کے بعد بی این وائی ایم کے بنیاد رکھنے میں بھی ایک اہم رول ادا کرتا ہے ،اس سفر میں واجہ کے ساتھ پہلے بہت لوگ ہوتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ شہید کے مفاد پرست ساتھی اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر شہید کا ساتھ چھوڑ کر پاکستانی پارلیمنٹ میں جاتے ہیں لیکن شہید غلام محمد ان مراعات پرست لوگوں کا ساتھ چھوڑ کر قومی آزادی کی جدوجہد کے فلسفے پر رواں دواں رہتے ہیں اور اپنے نظریے کو زندہ رکھتے ہیں، جو لوگ پارلیمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں ،ان سے اپنی راہیں الگ کرتا ہے، ایک انقلابی قائد کی طرح وہ انقلاب کو پھیلانے کیلئے اپنے علاقے سے نکل کر اپنے نظریاتی ساتھیوں کی تلاش میں بلوچستان کے کونے کونے کا سفر کرتا ہے بلوچستان کا شاید ہی کوئی ایسا علاقہ یا گاؤں بچا ہے جہاں غلام محمد نے سفر نہیں کیا ہے، ڈیرہ بگٹی سے لیکر گوادر تک ہر علاقے میں لوگوں کو اکھٹا کرکے اُنہیں پاکستانی قبضہ گریت کے حوالے تعلیم دیتا تھا اور اُنہیں ریاست کے سامنے کھڑے ہونے کا درس دیتا تھا، ایک عظیم قائد کی طرح لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر اُنہیں بلوچ نیشنلزم کی جانب موبلائز کرتا تھا۔

شہید غلام محمد وہ واحد بلوچ رہنما ہوتا ہے، جو جنگ کو ایک طبقے یا قبائل سے نکال کر عام بلوچ کے گھر تک پہنچانے کی جدوجہد کرتا ہے، اس دوران وہ کئی مصیبت اور پُر کھٹن حالات کا سامنا کرتا ہے لیکن وہ چلتن پہاڑ کی طرح مضبوطی سے کھڑا رہتا ہے، ریاستی فوج اور اُن کے ایجنسیوں کی جانب سے شہید غلام کو کئی مرتبہ اغواء کیا جاتا ہے، ان پر شدید تشدد کیا جاتا ہے کہ اپنے موقف سے ہٹ جائیں لیکن شہید غلام محمد قومی آزادی کی خاطر ریاستی تشدد کو قبول کرتا ہے، لیاری کی تنگ گلیاں ہوں یا تربت میں عوام کا سمندر وہ اپنے گرجتے آواز سے پوری قوم کو آزادی کا پیغام دیتا تھا، ریاستی فوج اور اُن کے زر خرید کاسہ لیسوں کو اُن کے سامنے للکارتا تھا، ایک دفعہ شہید کے علاقے میں ریاستی فوج پر رات کے وقت سرمچاروں کا کامیاب حملہ ہوتا ہے، حملے کے بعد ریاستی فوج عوام پر کئی راکٹ اور دوسرے ہتھیاروں سے حملہ کرتا ہے، اس ریاستی مظالم و جارحیت کے خلاف شہید صبح ایک مظاہرہ کرتا ہے، جس میں ہزاروں کی تعداد میں عوام شریک ہوتا ہے، مظاہرے کو پاکستانی قابض فوج کے گیٹ کے سامنے پہنچا کر شہید پاکستانی قابض فوج کے خلاف نعرہ بازی کرتا ہے، اُسی وقت ایک کرنل نکل کر پوچھتا ہے کہ کل رات ہم پر حملہ کس نے کیا تھا، تو شہید اُسے جواب دیتا ہے کہ’’ وہ حملہ ہم نے کیا تھا آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں ہمیں آپ دشمنوں کی ضرورت نہیں، ہمارا اپنا ایک قومی فوج ہے جو سرحدوں کی حفاظت کر سکتا ہے، آپ قابض ہو تم اور تمہاری قابض فوج کو ایک دن یہاں سے نکلنا ہے اور وہ دن دور نہیں ہے کیونکہ بلوچ قوم اب جاگ چکی ہے۔ اب بلوچ نوجوان ہتھیار اُٹھانے کے قابل ہو چکے ہیں تمہاری جارحیت کا جواب دینا اب ہمیں آتا ہے ،تمہیں ایک دن یہاں سے جانا ہی ہوگا یہ سرزمین بلوچوں کی ملکیت ہے جہاں ہزاروں سال سے ہم آباد ہیں تم پنجابیوں کا سرزمین پنجاب ہے، جتنی جلدی سمجھ سکتے ہو سمجھ جاؤ کیونکہ بلوچ قوم اب مزید پنجابیوں کی غلامی نہیں کرے گی۔ اب بلوچ قوم کے اپنے قومی رہبر ہیں آج میرے ساتھ ہزاروں کے تعداد میں لوگ آپ کے خلاف آپ کے بندوق کے سامنے کھڑے ہیں یہ انقلاب کی نشانی ہے لوگوں کا اتنی بڑی تعداد میں میرے ساتھ ہونا ہی تمہاری شکست ہے۔‘‘

شہید غلام محمد ایک نڈر لیڈر تھے، وہ دشمن کے سامنے دشمن کو للکارنے سے نہیں ڈرتے تھے، قابض پاکستانی فوج کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا تھا کہ ’’یہ بلوچوں کی سرزمین ہے‘‘ یہاں ایک زندہ قوم بلوچ صدیوں سے آباد ہے، آپ پنجاب کی حفاظت کرو، وہ تمہاری سرزمین ہے ہماری حفاظت کے لیئے ہزاروں سرمچار پہاڑوں میں مشکل زندگی کسی بھی لالچ کے بغیر گذار رہے ہیں، قومی آزادی کا پیغام لیئے وہ بلوچستان کے کونے کونے میں جایا کرتا تھا یہ پہلی بار ہو رہا تھا کہ جنگ سرداروں سے نکل کر عام عوام تک پہنچ رہا تھا، جو ریاست کسی بھی صورت نہیں چاہتا تھا کیونکہ پہلے جنگوں کو سرداروں کا اپنا مسئلہ قرار دے کر عوام کو گمراہ کرتا تھا لیکن اس مرتبہ غلام محمد ایک نئے نظریے کے ساتھ دشمن سے مدمقابل ہونے کو آیا تھا۔

شہید نے بی این ایم جیسے عظیم قومی پارٹی کا بنیاد رکھ کر قوم کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا، جس کے منشور کے سائے بلوچستان میں بسنے والے ہر طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ جمع ہوکر قومی آزادی کے لیے جدوجہد میں مصروف عمل ہو گئے ہیں۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کو فعال کرنے میں واجہ غلام محمد نے بلوچستان کے ہر کونے کا سفر کیا، لوگوں کو یکجاہ کیا اس کاروان کو منزل مقصود تک پہنچانے کیلئے واجہ غلام کے ساتھ لوگوں نے جڑنا شروع کیا اور بالآخر شہید نے بلوچ نیشنل موومنٹ کو بلوچستان کے گھر گھر میں پہنچا دیا۔

شہید غلام محمد کو ریاستی شکستہ فورسز نے کئی مرتبہ اغواہ کیا، تشدد کیا، عقوبت خانوں میں قید کرکے انسانیت سوز ٹارچر دیا، ان سب ہتھکنڈوں میں ناکامی کے بعد لالچ و مراعات دینے کی کوشش کی لیکن شہید غلام کے نظریے کو شکست نہیں دے سکے۔ ہر مرتبہ رہا کرنے کے بعد قابض فوج اُسے تنبیہ کرتا تھا کہ عوام کو آزادی کی جانب راغب نہ کریں۔ آزادی کے مطالبہ سے دستبردار ہو جاؤ وگرنہ تمہیں جان سے مار دینگے لیکن غلام محمد نے خود ایک مرتبہ کہا تھا کہ’’ اگر ہم شہیدوں کو سُرخ سلامی پیش کر سکتے ہیں تو یہی سلامی ہم اپنے لیئے کیوں قبول نہیں کر سکتے ‘‘

اسی لیئے غلام محمد کو زندان و ریاستی عقوبت خانے شکست نہ دے سکے۔ شہید نے اپنے سفر میں ایک اور عظیم کام سرانجام دیا جو پہلے اور اب تک کسی بھی بلوچ رہنما نہیں کر سکا ہے، وہ پلیٹ فارم جہاں سب آزادی پسند تنظیمیں اکھٹا ہوکر ریاستی قبضے کے خلاف جدوجہد کریں وہ پلیٹ فارم بی این ایف کی صورت میں اپنی ان گنت محنتوں اور جدوجہد سے قائم کیا، جو آج تک قائم و دائم ہے البتہ وہ الگ بات ہے کہ کچھ دوستوں نے شہید کی شہادت کے بعد اپنے کچھ مفادات کی خاطر اس اتحاد سے کنارہ کشی کی۔

شہید غلام محمد کو اُن کے دو انقلابی قائد لالا منیر اور شیر محمد سمیت ریاستی قابض فوج نے ۳ اپریل 2009 کو کچکول علی ایڈوکیٹ کے دفتر سے اغواہ کیا، اس خبر کے پھیلتے ہی پورے بلوچستان میں ایک آگ سی لگی۔ بلوچ قومی رہبر کے جبری اغواء کے خلاف بلوچستان کے ہر کونے سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاج و مظاہرہ کیئے ،عوام اپنے گھروں سے نکل رہے تھے اور پانچ دن ہی گُذرے تھے کے مرگاپ کے مقام پر تینوں بلوچ سپوتوں کے لاش برآمد ہوئے، یہ ہر قابض کا شیوہ ہوتا ہے کہ وہ قومی رہبروں کو شہید کرکے قومی جدوجہد کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پاکستانی ریاست یہ نوشتہ دیوار ضرور پڑھ لیں کہ جسمانی حوالے سے ہمارے لیڈروں کو جدا کرکے آپ اُن کے فکر اور نظریہ کو ہم سے جدا نہیں کر سکتے آج بلوچ کا ہر سپوت شہید غلام محمد ہے۔