بلوچ شہیدوں کا تاریخی دن: تحریر : برزکوہی بلوچ

552

بی ایس او آزادنے 2010 میں اپنے مرکزی کمیٹی اجلاس میں متفقہ طورپر ایک تاریخی فیصلہ کیا کہ 13 نومبر کو تمام بلوچ شہداء کی یاد مشترکہ طور پر منایا جائیگا۔
تیرہ نومبر وہ تاریخی دن ہے جہاں سے بلوچ قوم کی غلامی کی دور کا آغازاور انگریزوں کے خلاف بلوچ مزاحمت اور خان آف قلات شہید محراب خان اور اس کی ساتھیوں کی شہادت کا دن ہے، انگریز کے انخلاء کے بعد بلوچستان پر کالے انگریز پنجاپی پاکستان کے بلوچستان پر قبضہ اوراس کے بعد مسلسل پاکستان کے خلاف مزاحمت اورریاست بلوچستان کی واپس تشکیل اور بحالی کی جدوجہد جو کہ ہنوز جاری و ساری ہے اس وقت ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزند اپنی مٹی کا فرض ادا کرتے ہوئے جام شہادت نوش کئے ہوئیں ہیں،یہ ایک ناقابل تردید اور ناقابل فراموش سچائی ہے کہ شہید قوموں کی تقدیر بدلنے کا زریعہ اور قوم کے حیات ہوتے ہیں۔
جب قومیں اپنی شہداء کو فراموش کرتے ہیں یا ان کی سوچ اور فلسفے سے روگردانی کرتے ہیں تو ایسی قوموں کی مقدر میں غلامی کی طوق تاابد ان کے گردن کا ہار بنے گا۔
تمام شہیداء کی قربانیاں جان کا نذرانہ پیش کرنا عظیم اور ناقابل فراموش ہوتا ہے، لیکن کچھ عظیم سے عظیم تر ہوتے ہیں ان کی مثالی کردار شہادت سے پہلے وسیع سوچ، بہادری ،خلوص ،ایمانداری ،بے غرضی، صبرواستقامت ،دوراندیشی ،مستقل مزاجی اور بے پایاں خوبیوں اور ہنرمندی سے لیس کردار تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ روشن باب کی باب کی طرح زندہ ہونگے، ان کو ایک لمحہ بھی بھول جانا ناممکنات میں شامل ہے کیونکہ ہر لمحے ہمارے دل و دماغ میں رہ کر آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔
اپنے کردار اور مقام کی تعین بھی اپنا اختیار اس وقت ضرور ہوتا، جب انسان علم و زانت اور شعور سے لیس ہو،
بے علمی و نا زانتی بذات خود انسان کی کردار کے زوال کی نشانی ہوتی ہے
تیرہ نومبر کا مخصوص دن شہداء کے نام سے منسوب کرنا واضح طور پر مقصد ،اپنے تمام شہداء کو فخر کے ساتھ ایک ہی دن میں یاد کرنا، شہیداء کی فکر و عمل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا اور انھیں پرجوش انداز میں خراج تحسین پیش کرنا یہ تاریخی فیصلے کا بنیادی وجہ کہ بلوچ قوم اس وقت شدت کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں ،آگے روزانہ کی بنیاد پر دشمن کی ہاتھوں بلوچوں کے لاشیں گرنے کا سلسلہ جاری ہوگا اور 2010 سے واقعی یہ سلسلہ تیزی کے ساتھ بڑھتا گیا، جو آج تک جاری ہے پھر ہر دن شہداء کی یاد میں تقریب و پروگرام منعقد کرنا ممکن نہیں ،یا پھر چند شہیدوں کو تقسیم کرکے یا ہر ایک اپنی پارٹی سے منسلک شہداء کو یاد کرنا، ان کی برسی منانا باقیوں کو چھوڑ کر جن کا کوئی گروہ یا پارٹی سے کوئی تعلق ہی نہ ہو ان کو نظرانداز کرنا شہداء کی قربانیوں کی ساتھ ناانصافی کے ساتھ ساتھ خود شہیدوں کو بھی کسی محدود حلقے میں بند کرنے کی تاثر کو جنم دینے کے مترادف ہوگا حالانکہ شہید کسی بھی پارٹی، علاقہ، گروہ، ذات اور خاندان کے نہیں ہوتے بلکہ وہ پوری قوم
اور سرزمین کے خاطر قربان ہونے والے قومی اثاثہ ہوتے ہیں۔
گوکہ زندگی میں ہر ایک کا ایک گروہ اور پارٹی کے ساتھ ضرور وابستگی ہوتا ہے، لیکن ساتھ ساتھ اس کا زیادہ تر وابستگی ایک فکر و نظریہ کے ساتھ ہوتا ہے، پارٹی صرف فکرو نظریہ کو آگے لے جانے کا ایک زریعہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، سب سے اہم فکرو نظریہ اور مقصد ہی ہوتا ہے اور تمام شہداء کی فکر و مقصد بلوچ قوم اور بلوچستان کی قومی آزادی ہے اور آج بھی بلوچ لڑ رہے ہیں اور قربان ہورہے ہیں، ان کا فکر و مقصد صرف اور صرف قومی آزادی ہے۔
کیونکہ فکر و مقصد ہمیشہ اہم ہوتا ہے، اس وقت تک جب فکر و مقصد خود تذبذب کا شکار نہ ہو، پھر فکر و مقصد پر کوئی بھی چیز اثر انداز نہیں ہوگا اور جب فکر کمزور و مفلوج اور مقصد پر انسان عدم اطمینان، بے یقینی ،نا امیدی اور الجھن کا شکار ہو تو پھر اس وقت انسان تحریک کے ساتھ وابستہ ہوتے ہوئے شخصیت پرستی، خوف، لا لچ، پارٹی بازی ،قبیلہ اور علاقہ پرستی کا شکار ہوگا، جو سب کے سب واضح طور پر خود غرضی کی نمایاں شکل ہیں جو مضبوط فکر اور اہم مقصد کی مکمل نفی ہیں اور ایک خود غرض انسان کبھی بھی فکری طور پر مضبوط اورمقصد کے حصول میں مدد گار ثابت نہیں سکتا ہے۔
آج اگر پاکستان کی بربریت اپنی انتہاء پر پہنچ چکا ہے ،جو بلوچ صبح اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اسے اور اس کے گھر والوں کو یقین نہیں ہوتا ہے کہ وہ واپس آئے یا لاپتہ ہوگا یا لاش گھر آئے گا، کیونکہ بلوچ قوم اپنی ہی سرزمین پر نسل کشی کے مرحلے اور دور سے گزر رہا ہے اس حالت میں تمام بلوچوں کے دل میں اپنے حقیقی ہیروز اور عظیم ہستیوں شہداء کی خاطر بے پناہ پیار اور محبت ضرور ہے، لیکن وہ کھل کر اظہار نہیں کرسکتے ہیں یہ ایک وقتی لہر اور حالت ہے آگے ایسا نہیں ہوگا اس وقت تمام بلوچوں کا فرض ہے وہ پاکستانی ریاست کی پالیسیوں کو مدنظر رکھ مختلف سطح اور مختلف طریقوں سے تیرہ نومبر کے دن کو ضرور اپنے شہیدوں کا دن بطور یادگار منائیں، پھر یہ سوچ خود آہستہ آہستہ پوری بلوچ قوم میں پختہ ہوکر آگے چل کرتیرہ نومبر مزید بلوچوں کیلئے قابل فخر اور شان و شوکت کا دن ہی ہوگا۔