سی پیک منصوبہ یا گوادر کے عوام کیلئے موت کا کنواں: تحریر: جیئند بلوچ

637

بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر محنت کش کی خوبصورت بیٹی جیسی ہے جس کی جمال پر ہر ایک کی للچائی نظریں جمی ہوئی ہیں مگر خود وہ فاقہ ذدہ ہے۔

جون ایلیا نے کہا تھا کہ ”وہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی”

مگر ہمارا گوادر اپنی حسن و جمال کے ساتھ ساتھ فاقہ کش بھی ہے اور دل کش بھی جسے فاقہ کشی کے باوجود سب چاہتے ہیں۔

گوادر کا شمار اس وقت عالمی سطح کے اہم تریں شہروں میں ہوتا ہے جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے ہاتھ آئے اس کی معاشی برتری کا زریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔

اس کی بدقسمتی مگر یہ ہے کہ اس کا حسن خود ان کا دشمن بنا پڑا ہے گوادر کے باسیوں کے لئے سی پیک خوشحالی کیا لائے گی ان کی تباہی کا بیلک ہول بنتا جارہا ہے۔

کھربوں روپے مالیت کے اس منصوبے کا منبع پیاس کے لئے بلک رہی ہے۔ چاروں اطراف نیلگوں سمندر کے باوجود کیوں پیاس کو بلک رہی ہے یہی دراصل ان کی تباہی کا پیش خیمہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے ساتھ مل کر چائنا گوادر میں سی پیک منصوبے پر کام کررہا ہے، پاکستانی ریاست ببانگ دہل اعلان کررہی ہے کہ سی پیک منصوبہ ان کی معاشی شہ رنگ ہے جس کی تکمیل سے وہ دنیا کے ابھرتے ہوئے معاشی قوت میں شمار ہوگا۔

جب پاکستان یہ دعوی کرتی ہے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ جو سچ پاکستان بول رہی ہے شاید اس سے کئی گنا زیادہ معاشی فائدہ چائنا اٹھائیگی دونوں ریاست سی پیک منصوبے کی تکمیل کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگارہے ہیں سی پیک منصوبے کی بدولت چائنا پاکستان کو مالی سپورٹ کے ساتھ دیگر مدات میں بھی سپورٹ کررہی ہے۔

دونوں ممالک اپنے دوستانہ تعلقات کو گوکہ سمندر سے گہرے اور ہمالیہ سے مضبوط تر بتا رہے ہیں مگر دراصل دونوں کے سامنے دوستی کا معیار سی پیک ہے جس کا مرکز گوادر اور گوادر بلوچستان کا خوبصورت ساحلی پٹی ہے۔

سی پیک کی تکمیل سے پاکستان اور چائنا کیا معاشی مفادات سمیٹ لیتے ہیں؟ انہیں کس قدر فائدہ پہنچتا ہے؟ ان کا شمار دنیا کے کس قدر بااثر معاشی طاقتوں میں ہوسکتا ہے یہ موضوع اس وقت ہمارا درد سرنہیں ہے ہمارے لئے مسلہ یہ ہے کہ گوادر کی بدولت ان دونوں ریاستوں کو جتنی معاشی طاقت حاصل ہوگی کیا بلوچستان یا گوادر کے عوام کی تقدیر میں کچھ خوبصورتی آئے گی یا محض یہ محنت کش کی خوبصورت بیٹی ہی بنی رہے گی جن کے والدین روز ان کی خوبصورتی پر دل گرفتہ ، پریشان حال اور ہر آن خوف میں مبتلا رہییں گے۔

اگر زمینی حالات کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے گوادر کی تقدیر بدلے تو صرف تباہی کی جانب بدلے گی، یہاں مقامی آبادی کی قوت میں غیر مقامی آبادی آٹے میں نمک کے برابر لے آئے گی بلکہ گمان یہ ہے کہ سیکیورٹی مشکلات کا بہانہ بنا کر مقامی آبادی کو گوادر سے منتقل کیا جائے گا اور یہاں پاکستان کے دیگر علاقوں بالخصوص پنجاب سے لوگوں کو لا کر آباد کیا جائے گا یہ محض ایک الزام نہیں بلکہ وہ تلخ سچائی ہے جسے بلوچستان کے پارلیمانی سیاست کار بھی جانتے ہیں بسااوقات وہ اس تلخ حقیقت کا اظہار اپنے نجی مجالس میں بھی کیا کرتے ہیں مگر چونکہ ان کا ضمیر مردہ اور احساس نامی شے ان میں ختم ہوگئی ہے اس لئے وہ اس متعلق کبھی لب کشائی نہیں کرتے بلکہ خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

گوادر میں مقامی آبادی کے انخلاء کی تیاریاں مختلف زاویوں سے ابھی شروع ہیں ایک جانب اربوں روپے مالیت کا سی پیک ہے جس کے چھتری تلے دونوں ممالک کی ڈیڑھ ارب آبادی کی خوشحالی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف اسی سی پیک کے منبع گوادر میں جس کے تین اطراف بلکہ چاروں اطراف سمندر موجزن ہے ان کے باسی پیاس کو تڑپ رہے ہیں جو عجب حیرانگی کی بات ہے کیوں کہ دنیا بھر میں جہاں سمندر ہیں ان کے کھارے پانی کو میٹھا کر کے آبادی کو سپلائی کیا جاتا ہے مگر یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ سممندر کنارے کربلا کا منظر ہے۔

اہلیان گوادر یزدیت کے شکار ہیں وہ پانی کی ایک ایک بوند کے لئے ترس رہے ہیں مگر اسی گوادر میں معاشی خوشحالی کا عروج ہونے والا ہے۔ بنظر غائر اگر غور کیا جائے تو گوادر میں پانی کا بحران سراسر مصنوعی ہے بلکہ یہ ایک پیدا کردہ عمل ہے جس کا مقصد مقامی آبادی کو پہلے مرحلے میں بغیر کسی جبر وتشدد علاقہ بدری کرانا ہے کیوں کہ پانی زندگی ہے جہاں پینے کو پانی نہ ملے انسانی آبادی یقینا وہاں نہیں رہ سکتی اس لئے پاکستان وچین مل کر گوادر کے باسیوں کو یہاں سے نکالنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ان کے لئے پانی کا بحران پیدا کر کے مقامی آبادی کو انخلاء پر مجبور کرنا دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ کسی جبر وتشد کے بغیر کے لوگ خود کوچ کررہے ہیں لیکن اگر اہلیان گوادر نے اس مصنوعی منصوبہ بندی کے برخلاف نقل مکانی سے اجتناب کیا اور علاقہ نہ چھوڑا تو دوسرے مرحلے میں ان پر تشدد کے زریعے نقل مکانی پر مجبور کیا جائے گا یہ عمل بھی مقامی آبادی کی بدتریں تذ لیل، ان پر گھر آتے جاتے پوچھ گچھ، شناختی کارڈ کا پوچھنا دیگر نوعیت کے سوالات وغیرہ یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ اب مقامی آبادی کے لئے تلخ تریں ایام دور کی بات نہیں ہیں۔