پاکستانی نادرا انتظامیہ نے تحقیقات کے بعد اس بات کی تصدیق کرلی ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کو جاری پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ اصلی ہیں۔ اس بات کی تصدیق پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ ” نادرا نے اپنے بین الادارتی تحقیقات میں ذمہ داروں کا پتہ چلایا ہے جنہوں نے ملا اختر کو محمد ولی ولد شاہ محمد کے نام سے شناختی کارڈ کا اجراء کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ذمہ دار ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر فیصل الدین کو اسکے عہدے سے فارغ کردیا گیا ہے۔

یہ تازہ ترین انکشافات اس وقت آئے ہیں جب پاکستان پر امریکہ آفیشل سطح پر باقاعدہ اب یہ الزام لگا رہا ہے کہ پاکستان ان دہشتگردوں کو اپنے ملک میں پناہ اور سہولیات فراہم کررہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ منگل کے دن جنوبی ایشیاء کے بابت اپنے پالیسیوں کا اعلان کرتے وقت پاکستان پر شدید نقطہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ ” پاکستان دہشتگردوں کو اپنے ملک میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررہا ہے ” اور پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اب وہ مزید خاموش نہیں ہوگا۔

پاکستان پر یہ الزام افغانستان، امریکہ اور بھارت کافی وقت سے لگاتے آرہے ہیں کہ پاکستانی دہشتگردی کو اپنے خارجی پالیسی میں ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے اور کئی عالمی دہشتگرد تنظیموں کو اپنے ذمین پر محفوظ پناہ گاہیں اور وسائل فراہم کررہا ہے۔

پاکستان نے جس طرح دہشتگردی کو اپنے خارجہ پالیسی کا حصہ بنایا ہے اس سے کئ جہادی عناصر کو پاکستانی سیاست میں ایک فیصلہ کن اثرورسوخ بھی حاصل ہوگئی ہے۔ جو کھلم کھلا پاکستانی سیاست میں حصہ لیتے ، جلسے اور پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ اسکی تازہ ترین مثال ڈیفینس آف پاکستان کونسل نامی تنظیم ہے۔ اسکے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کل پریس کانفرنس سے خطاب کرتا ہوئے کہا تھا کہ “پاکستان آرمی حقانی نیٹورک کے خلاف کوئ بھی قدم نہیں اٹھائے گی” مولانا سمیع الحق جمیعت علماء اسلام س گروپ کے سربراہ بھی ہیں اور افغان جہاد کے ایک مرکزی کردار بھی رہے ہیں انکا مزید کہنا تھا کہ ” ہم امریکہ کے خلاف افغانستان میں جہاد کررہے ہیں” انہوں نے نوجوانوں سے جہاد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ” ہمیں جہاد کیلئے اپنی آواز بلند کرنی ہوگی اور ہر امام کو اب ہر مسجد میں جہاد کا پرچار کرنا ہوگا تاکہ ہمارے نوجوان جہاد کیلئے تیار ہوسکیں۔ ہم افغانستان میں امریکہ سے لڑرہے ہیں جو لڑ نہیں سکتے وہ اپنے الفاظ اور قلم سے اس جہاد میں شامل ہوجائیں اور مغرب کو شکست دیں”

یاد رہے کہ ڈیفینس آف پاکستان کونسل مختلف مذہبی جماعتوں پر مشتمل ایک محاذ ہے۔ اس کے بارے میں تجزیہ نگار وثوق سے کہتے ہیں کہ اسے پاکستانی فوج کی حمایت حاصل ہے۔ اسکا قیام بھی ایک پاکستانی سابق جنرل حمید گل نے کی تھی۔ یاد رہے پاکستانی حکام مسلسل ٹرمپ کے الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں لیکن دوسری طرف ایسے مذہبی عناصر کھلم کھلا پریس کانفرنسوں میں جہاد کا اعلان کررہے ہیں۔

دریں اثناء کابل میں مسجد پر حملے اور ہلاکتوں کے بعد افغانستان میں نیٹو کمانڈر جنرل جان نکولسن نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ” ہم امن بحالی کیلئے افغانستان کے ساتھ ہیں اور ہم دہشتگردوں کے خلاف افغان فوج کو ہر ممکن مدد فراہم کریں گے” جمعے کو ہونے والے اس حملے میں تیس افراد جانبحق ہوئے تھے اور اسکی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی تھی جس کے بارے میں افغان حکام کا الزام ہے کہ حقانی نیٹورک کی طرح انہیں بھی پاکستانی فوج کی حمایت حاصل ہے۔

جنرل نکولسن کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے نئے افغان پالیسی اور پاکستان کے بابت سخت پالیسیوں کے بنانے میں ایک کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ جنرل نکولسن آج کابل میں ایک خطاب بھی کررہے ہیں جو طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کے بابت ہے۔ وہ کوئٹہ، کراچی اور پشاور شوریٰ کے بارے میں نئی امریکی حکمت عملی پر بات کریں گے۔