بلوچ طلباء اور درپیش مسائل – سنگت حکیم بلوچ

299

بلوچ طلباء اور درپیش مسائل

تحریر: سنگت حکیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں سرکاری ریکارڈ کےمطابق شرحِ خواندگی 41 فیصد ہے. 2.7 ملین بچوں میں سے 1.9 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صوبے میں موجود اسکول بچوں کے سامنے خراب تاثر دے رہی ہے۔ سکولوں میں نہ دیواریں ہیں، نہ پینے کا پانی اور نہ اسکول کو ملنے والی تمام ضروریات موجود ہیں۔ تعلیم کے اعتبار سے بلوچستان ملک کا پسماندہ ترین صوبہ سمجھا جاتا ہے۔

بات کو ہائیر ایجوکیشن کی طرف بڑھاتے ہوئے یہ عرض ہے کہ بلوچستان میں یونیورسٹیز کی تعداد بمشکل 10 سے اُوپر ہے۔ کیپیٹل شہر کوئٹہ میں محض 4 یونورسٹیز موجود ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ چاروں تعلیمی ادارے کبھی نہ کبھی ، کسی نہ کسی سبب سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی زینت بن جاتے ہیں۔ یونیورسٹی آف بلوچستان کے حالیہ بلیک میلنگ اور حراسمنٹ اسکینڈل ابھی تک بلوچستان کے طلبہ کے ذہنوں میں گردش کر رہی ہے۔ والدین اپنے بچوں کو پڑھنے کے لئے بھیجنے سے انکاری ہیں کیونکہ باتھومز میں کیمرے نصب کرنے کی شکایات موصول ہوچکے ہیں ۔ چونکہ بلوچستان جیسے قبائلی روایات میں اسطرح کے بد عمل کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لئے بلوچستان حکومت نے ایک تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی جو حتمی نتائج تک نہ پہنچ سکی اور درمیان میں منصوبے کے تحت اس اسکینڈل کو دبادیا گیا۔ اب ادارے سے خوف اور حراس کی بو آتی ہے کیونکہ یہ بنسبت ایک تعلیمی ادارہ کم اور چھاونی کی منظر زیادہ پیش کرتی ہے۔

طلبا کا کہنا ہے کے اُنہیں وہاں طرح طرح سے حراس کیا جاتا ہے. اس طرح کی حالات نے طالبعلموں سے ان کے تعلیمی حقوق ضبط کئے ہیں، طلباء ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوچ ہو چکے ہیں، آزاد رہنے، اٹھنے بیٹھنے اور سوچنے کا حق کسی کو حاصل نہیں۔ اس طرح کے ماحول سے نکلنے کے لئے بلوچستان کے غریب طلباء نے ملک کے دوسرے صوبے پنجاب کی جانب رجوع کرنا شروع کیا اور بڑی مشکل سے پنجاب تک خود کو پہنچایا۔ اس وقت بلوچستان کے ایک ہزار سے زائد طلبا پنجاب کے تعلیمی اداروں میں داخل ہیں ، دل میں یہ آس لیکر کہ یہاں شاید اچھا تعلیمی ماحول مل سکے۔ لیکن بد قسمتی سے یہاں بھی اُن کو کئی دشواریاں درپیش ہیں۔ امید یہ تھی کہ یہاں پڑھ لکھ کر واپس بلوچستان چلیں گے اور چیزوں کو بہتر بنائیں گے۔

یہاں جو بلوچستان سے اسٹوڈنٹس اسپیشل کوٹہ پہ آتے ہیں یعنی( Reserve seats) پر تو اُن کو کلاس رومز میں صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے طعنے دیئے جاتے ہیں کہ تم لوگ ہر جگہ فری میں قبضہ جمائے ہوئے ہو۔ بہرحال دور سے آئے علم کی پیاس بجھانے ، اب اتنا تو برداشت کرنا پڑتا ہے.

آپ سب کو پتہ ہونا چاہیئے، دو ہفتے پہلے بہاولدین زکریا یونیورسٹی میں بلوچستان کے بلوچ و پشتون طلباء پر کسی دہشت گرد تنظیم نے حملہ کیا، جس میں ایک طالبعلم کو گولی لگی اور متعدد زخمی ہوئے اس کے بعد جب طلبا نے آواز بلند کیا انصاف فراہم کرنے کے بجائے اُن پر دوبارہ حملہ کرایا گیا۔ لاٹھی اور ڈنڈوں کا کلچر روز کا معمول بن چکا ہے اور یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل ذکریا یونیورسٹی سمیت پنجاب کے دیگر اداروں میں بھی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلباء پر تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں۔ اس سے قبل لاہور، پنجاب یونیورسٹی میں مذہبی پارٹی کے طلباء ونگ کی جانب سے بلوچ کونسل کے رہنماؤں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا واقع بھی پیش آیا تھا –

حتیٰ کہ اسلام آباد جیسا پرامن شہر بھی بلوچ طلبا کے لئے ایک جنگی میدان سے کم نہیں ۔ سال 2017 میں قائداعظم یونیورسٹی میں بلوچ کونسل پر حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں بلوچ کونسل کے ممبرز شدید زخمی ہوئے، انتظامیہ نے ان کو تحفظ دینے کی بجائے الٹا یونیورسٹی سے ایکسپل کردیا۔

اب طلباء جائے بھی تو کہاں؟ بلوچستان میں تعلیمی نظام خستگی کا شکار اور ادارے برباد و تباہ ہیں جبکہ یہاں لاٹھیوں اور گولیوں سے استقبال کیا جاتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔