انسانی حقوق کے لاپتہ کارکن راشد حسین کے لیے کوئٹہ میں احتجاج

275

دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق انسانی حقوق کے لاپتہ کارکن راشد حسین بلوچ کے عدم بازیابی کے خلاف لواحقین کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

مظاہرے میں راشد حسین کے لواحقین، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے رہنماوں سمیت انسانی حقوق کے کارکنان اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

مظاہرے میں شریک راشد حسین بلوچ کے والدہ نے کہا کہ میرے بیٹے راشد حسین کو پاکستان کے اداروں کی ایماء پر 26 دسمبر 2018 کو شارجہ سے گرفتار کیا گیا اور بیرونی ملک اس گرفتاری کا دعویٰ ڈی آئی جی کراچی عبداللہ شیخ اور سی ٹی ڈی کراچی کے آفیشلز نے میڈیا کے نمائندوں سے ایک پریس بریفنگ کے دوران کی۔

انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 30 جنوری 2019 کو دنیا ٹی وی کے اینکر پرسن اور میزبان پروگرام دنیا کامران خان کے ساتھ کے میزبان کامران خان کے ساتھ ایس پی ملیر عرفان بہادر نے بھی دعویٰ کیا کہ بیرون ملک ہمارے جاری آپریشن میں راشد نامی شخص کی شارجہ سے گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے تقریباً نصف سال یعنی 6 ماہ کے طویل عرصے تک میرے بیٹے کو عرب امارات میں لاپتہ رکھا گیا اور اس دوران نہ ہمیں راشد کے حوالے سے نہ کوئی آگاہی اور معلومات فراہم کی گئی اور نہ ہی انہیں کسی عدالتی فورم پر لایا گیا یہ وہ دورانیہ تھی جب میرا لخت جگر بیرونی ملک عرب امارات میں اپنی نا کردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہا تھا اور میں نصف سال تک اس کی جدائی میں کرب تکلیف کے ناقابل بیان درد سے گزررہی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ  22 جون 2019 کو میرے بیٹے کو خفیہ طور پر پرائیویٹ طیارے کے ذریعے پاکستان منتقل کیا گیا جس کی اطلاع ہمیں 3 جولائی 2019 کو میڈیا کے ذریعے اس وقت ہوئی جب ملک کے تمام معروف ٹی وی چینلوں نے اس خبر کو بریک کی کہ راشد حسین کو خلیجی ریاست سے گرفتاری کے بعد پاکستان منتقل کیا گیا ہے اور منتقلی کی سرکاری ذرائع نے تصدیق بھی کی اور منتقلی کے دستاویز ثبوت بھی ہمارے پاس موجود ہے۔

راشد حسین کے والدہ نے کہا کہ راشد کی مجموعی طور پر گمشدگی کو دسواں مہینہ ہے لیکن تا حال نہ انہیں کسی عدالتی فورم پر لایا گیا ہے اور نہ ہی ہمیں آن کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ معلومات دی جارہی ہے، طویل عرصے کے اس دورانیہ میں ہم نے عدلیہ، لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے اداروں سمیت انصاف کے حصول کیلئے مختلف دروازوں پر دستک دی لیکن کوئی جواب نہیں مل رہا جس کے باعث ہمیں راشد جان کی زندگی کے حوالے سے شدید خطرء لاحق ہے۔

انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی توسط سے انسانی حقوق کے عالمی اداروں، اقوام متحدہ کے ادارے برائے جبری گمشدگی، صدر مملکت، چیف جسٹس سپریم کورٹ سے دست بستہ اپیل کرتی ہوں کہ میرے بیٹے کی طویل گمشدگی اور تاحال لاپتہ رکھنے کا فوری نوٹس لیکر انہیں بازیاب کراکے ان کو انصاف دلائے اور مجھے درد و کرب کی اس کیفیت سے نجات دلائے۔

اس موقعے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ راشد حسین کو متحدہ عرب امارات کے خفیہ اداروں نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیکر غیر قانونی طریقے سے پاکستان کے حوالے کیا گیا اور وہ تاحال لاپتہ ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے متحدہ عرب امارات سے جواب طلبی کرے کہ راشد حسین کو کن قوانین کے تحت حراست میں لیکر لاپتہ کیا گیا اور پاکستان کے حوالے کیا گیا۔

بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے چیئرپرسن بی بی گل بلوچ نے کہا کہ کسی شخص کو کوئی حکومت اس طرح لاپتہ نہیں رکھ سکتا ہے اگر راشد حسین پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے جبکہ کمیشن برائے انسانی حقوق نے راشد حسین کے کیس کے سماعت کے دوران کہا کہ انہیں واپس متحدہ عرب امارات منتقل کردیا گیا لیکن خوش قسمتی سے راشد حسین کے والدہ کے پاس وہ تمام دستاویزات بطور ثبوت موجود ہے جن کے تحت راشد حسین کو غیر قانونی طور پر پاکستان منتقل کیا گیا۔

بی بی گل بلوچ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ راشد حسین کو تاحال منظر عام پر نہیں لایا جارہا ہے جس کی اجازت پاکستان کے قوانین خود نہیں دیتے ہیں۔

دریں اثنا راشد حسین اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے رہنما شبیر بلوچ کے عدم بازیابی کے خلاف بلوچ سیاسی، سماجی جماعتوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی جانب سے سوشل میڈیا پر کمپئین چلائی جارہی ہے جس میں بلوچستان میں سیاسی کارکنوں و دیگر افراد کے جبری گمشدگیوں بابت آگاہی فراہم کی جارہی ہے۔