کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3577 دن مکمل

129

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ 3577 دن مکمل ہوگئے خضدار سے سیاسی و سماجی کارکنان سمیت وومن ڈیمو کریٹک فرنٹ کے رہنما جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ اس موقع پر بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ بھی کیمپ میں موجود تھی جنہوں نے بعد ازاں تنظیم کی جانب سے پریس کانفرنس کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور میں شق نمر 5 میں درج ہے کہ کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی کو سزا دے یا کسی کو اغوا کرے یا نظر بند اور حبس بے جا میں رکھے، ان پر تشدد کرے جبکہ شق نمبر 9 میں بھی یہی لکھا گیا ہے لیکن بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالی کے خلاف باتیں کرنے والے بلوچوں کو ماورائے عدالت اغوا کرکے ٹارچر سیلوں میں بند کیا جاتا ہے جن کی لاشیں بعد میں ویرانوں سے ملتی ہے۔ پاکستان تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ پاکستانی ٹارچر سیلوں سے خوش قسمتی سے بچ کر واپس آنے والوں سے وہاں کے حالات کے حوالے سے سنتے ہیں تو ہماری رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا پاکستانی اداروں کی جانب سے دوران حراست غیر انسانی اعمال کا تسلسل آج بھی جاری ہے اس کے علاوہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو مختلف طریقوں سے حراساں کیا جاتا ہے، لاپتہ افراد کے نام پر ان کے لواحقین سے لاکھوں روپے لیے جاتے ہیں لیکن بعد میں انہی افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہے۔

ماما قدیر نے کہا آر سی ٹی ایک عالمی ادارہ ہے جو ہر تشدد کو روکھنے کے حوالے سے پوری دنیا سے کیسز جمع کرکے 26 جون کو رپورٹ شائع کرتا ہے لیکن بلوچوں کے حوالے سے انہوں نے کوئی رپورٹ شائع کی ہے آیا بلوچوں پر تشدد اس زمرے میں نہیں آتا ہے اگر آتا ہے تو آر سی ٹی سمیت دیگر عالمی ادارے بلوچستان پر توجہ دے اور مظالم کو روکھنے میں کردار ادا کریں۔