بلوچ کلچر ڈے پر متضاد آراء – حکیم واڈیلہ

664

بلوچ کلچر ڈے پر متضاد آراء

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے روزانہ کی بنیادوں پر بہت سے لکھاریوں اور دانشوروں کی تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں، جس میں اکثر لکھاری بلوچ قومی تحریک کی کامیابی کی خاطر اپنے خیالات، خواہشات، جذبات یا تجربات کا حوالہ دیکر عوامی شعور پھیلا نے کا کام کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم بہت کم ہی دیکھ پاتے ہیں کہ کسی لکھاری کی تحریر پر تنقید یا بحث کی جاتی ہو ۔ جن ساتھیوں کو تحریر سے اتفاق ہوتا ہے، وہ اس کا پرچار کرکے اس موقف کی تائید کرتے ہیں اور اگر کسی ساتھی کو اس بات یا طریقہ کار پر اختلافی نقطہ پیش کرنا ہو تو وہ بجائے اپنی رائے رکھنے کے خاموش رہ جاتا ہے کہ کہیں کوئی سینئر دوست اس بات سے خفا یا ناراض نہ ہوجائے۔

کیا ہم گذشتہ دو دہائیوں میں اس قدر بھی شعور یافتہ نہیں ہوئے کہ ہم جائز اورحقیقی تنقید کرنے سے یا اختلاف رائے رکھنے سے صرف اس لیئے ہچکچائیں کہ شاید میری باتیں یا میرا نقطہ نظر کسی دوست کو بُری لگے گی یا وہ انہیں اپنی ذات پر حملہ تصور کریگا۔ اگر آپ کسی کو اپنا سینئر کہتے ہیں اور آپ ان سے ہی سیکھتے ہیں اور وہ خود ہی آپ کو راست گوئی کا درس دیتا ہو، تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کے سکھائی ہوئی باتوں پر عمل کرنا اُن کو ناگوار گذرسکتا ہو؟ یہاں ان تمام باتوں کو رکھنے اور بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ ہمیں اپنے سرکلز میں اپنی دیوانوں میں، اپنی نشستوں میں اپنے ساتھیوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ صرف آنکھیں بند کرکے فالو کرنے سے پہلے ہر ایک عمل، ہر ایک قدم، ہر ایک بات اور ہر ایک فیصلہ سوچ سمجھ کر لینے کی طاقت اسی وقت ہی اپنے آپ میں پیدا کرسکتے ہیں، جب وہ اس بارے میں سوچینگے سمجھینگے اس پر اپنے تجربات اور مشاہدات سے تنقیدی نگاہوں سے دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرینگے تب جاکر ہی وہ حقیقی تنقید اور تنقید کے فوائد اور اس عمل سے پیدا ہونے والی بہتری کو سمجھنے میں کامیاب ہونگے۔

بلوچ قومی تحریک میں بہت سے ایسے پہلو موجود ہیں، جن پر بحث کرنے، تنقیدی نشست لگانے، سیاسی لیڈران و دانشوران کی جانب سے اپنی آراء پیش کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے دانشوران یا لیڈران یا تو لکھتے نہیں یا انہیں لکھنے کا شوق ہی نہیں عوامی سطح پر اگر ایک عمل آپ کے نظریات و سوچ کے برخلاف کی جارہی ہو اور اس عمل میں پوری قوم شراکت داری کررہی ہو تو یقیناً سیاسی و سماجی حوالے سے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس عمل کے ہر ایک پہلو کو پرکھا جائے پھر اس حوالے قوم و عوام کو شعوری بنیادوں پر تعلیم دی جائے۔

یہاں مثال کے طور پر ہم بلوچ کلچرل ڈے کو لیتے ہیں، جس میں بلوچ سیاسی آزادی پسند پارٹیوں میں بھی دو سوچ پائے جاتے ہیں ایک وہ سوچ جو اس دن کو حقیقی طور پر منانے اور اس دن کی حیثیت اور اہمیت کو ختم نہ کرنے کی مانگ کرتا ہے تو دوسری جانب وہ ساتھی ہیں یا سوچ ہے جو سمجھتے ہیں کہ آج بلوچ حالت جنگ میں ہے تو ہم کسی بھی طور پر خوشیاں نہیں منا سکتے یا پھر دوسرے دلیل میں یہ کہا جاتا ہے کہ پنجابی ایف سی و فوج بھی دستار پہن کر بلوچ کلچر ڈے کا حصہ ہے جو کلچر کے نام پر بلوچی روایات و غیرت کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔ میں پہلے دلیل کے جواب میں صرف یہ عرض کرنا چاہونگا کہ جب بلوچ نوجوان سرزمین پر قربان ہوتے ہیں تو انکے ساتھی یا انکے اہلخانہ غم و غصے کے بجائے انقلابی گانوں اور بلوچی نازینک کے ساتھ اپنے پیاروں کی تدفین کرتے ہیں۔

جہاں تک بات ہے دوسرے دلیل کی جس پر بحث کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیئے کیونکہ ہم سبھی جانتے ہیں جب کلچرل ڈے کی شروعات بی ایس او آزاد نے کی تو اس وقت ریاست نے بی ایس او آزاد کے پروگرامز کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جس میں کلچرل ڈے کے پروگرامز پر بمب سے حملہ کیا گیا اور ساتھیوں پر فائرنگ کی گئی ان واقعات میں بی ایس او آزاد کے دو ساتھی شہید سکندر اور شہید جنید بلوچ کلچر کو زندہ رکھتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔ اور اس واقعے میں زخمی ہونے والے ساتھیوں میں سے ایک ساتھی سنگت بیبرگ بلوچ بھی ہے، جو آج بھی معذوری کی زندگی گذار رہے ہیں لیکن وہ اس بات پر فخر کرتے ہیں وہ اپنی کلچر و شناخت کی خاطر قربانی دے سکے۔ جب اس طرح کے واقعات ریاست کی جانب سے کئے گئے اور عوامی سطح پر لوگوں میں یہ تاثر پروان چڑھنے لگا تھا کہ ہمارے نوجوانوں کو صرف اس لیئے شہید کیا گیا کہ وہ سر پر دستار باندھ کر بلوچ و بلوچیت کا پیغام عام کررہے تھے، مگر اس کے برعکس ان واقعات کے اگلے برس بلوچ سیاسی، سماجی و عوامی حلقوں میں جس طرح سے کلچر ڈے کی مخالفت اس دن کے بانیان کی جانب سے کی گئی تو ریاست کی جانب سے اس دن کو اپنے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بہت ہی آسان ہوگیا تھا۔

اب یہاں جو سب سے اہم سوال ہے وہ یہ ہے کہ بلوچ قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے والے کیوں ایک دن بلوچوں کے دستار سروں پر پہن کر بلوچوں سے ہمدردی اور محبت کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ تو اس کا جواب بہت ہی واضح اور سیدھا ہے وہ عام بلوچووں خاص طور پر شہری آبادیوں میں مقیم لوگوں کو اپنے پیدا کردہ ضمیر فروشوں اور سوداگروں کے زریعے یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم آپ کے اور ہمارے کلچر کے ضامن ہیں اور بقول انکے وہ بغیر کسی سیاسی ایجنڈے کے اس عمل کو آگے بڑھا رہے ہیں، جو حقیقت کے بلکل برعکس ہے۔ یہاں ایک اور اہم بات جو ہمیں ذہن نشین کرنا ہوگا کہ اگر بلوچ قوم کے حقیق وارث حقیقی طور پر بلوچ کلچرل ڈے کو مناکر عوامی سطح پر بلوچی روایات، بلوچی دستور، بلوچی دستار، بلوچی غیرت، بلوچی میار جلی، اور بلوچیت کی پرچار کرینگے تو یقیناً اس ڈھونگ اور ریاستی کلچرل ڈے کو شکست دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں اس کی مخالفت ہی کرنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں ان حقائق کا ادراک کرنا ہوگا کہ بلوچستان سمیت، دنیا بھر میں مقیم بلوچ قوم کلچرل ڈے کو مناتے ہیں اور وہ اس دن کو نہ فوجی طریقوں سے مناتے ہیں نہ ہی کسی ٹی وی چینل کے سالانہ اجتماع کی طرح مناتے ہیں بلکہ وہ اس دن کو اسی جوش جذبہ کے ساتھ مناتے ہیں جو جذبہ بی ایس او آزاد کے شہید ساتھیوں نے فراہم کیا تھا۔

اگر ہم اسی طرح سے ہر ایک سماجی عمل کابائیکاٹ کرینگے اور دلیل یہ دینگے کہ سرکاری سطح پر غلط طریقے سے ہمارے روایات، زبان، سیاسی و تاریخی حیثیت کو بیان کیا جارہا ہے تو یقیناً ہمارے پاس اس کے نعم البدل بھی موجود ہونا ضروری ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔