بی این پی اور چھ نکات سیاسی مخالفین کی بوکھلاہٹ – کاظم بلوچ

457

بلوچستان نیشنل پارٹی اور چھ نکات سیاسی مخالفین کی بوکھلاہٹ
تحریر۔ کاظم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان نیشنل پارٹی جو کہ بلوچ اکابرین اور سردار عطاء اللہ خان مینگل کی بلوچستان کے مظلوم عوام کے لیئے جہد کا تسلسل ہے، جو 1973 کے سیاسی جدوجہد جلاوطنی کے باوجود بلوچستان کے فرزند، حق پرستی و بلوچ ملت کے حقوق کے جمہوری سیاسی و قانونی حقوق کے لیے سیاسی، علمی و عملی پولیٹیکل سائینٹفک انداز میں سہ رنگی بیرک کے پرچارک ہوکر موثر انداز میں بلوچستان کی محرومیوں؛ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم؛ تعلیمی و معاشی حقوق ماحولیاتی و قدرتی آفات و مسائل اور خاص کر لاپتہ افراد اور پراکسی وار کے بلوچستان پر افغان مہاجرین کے شکل میں اثرات سے نمٹنے کے لیئے دانشمندانہ انداز میں اپنی جدوجہد جاری رکھ کر بلوچ مخلوق کا کیس بہتر انداز میں صوبے؛ ملکی و عالمی سطح پر پُر امن و سیاسی وے پر اُجاگر کررہی ہے؛ 2018 کے عام انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپنے سیاسی نکات میں بلوچ عوام سے اس سلوگن کے تحت ووٹ لیئے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی اس ملک کے جمہوری سیاسی اداروں میں ان کے ساحل، ان کے وسائل؛ ان کے فرزندان وطن کی بازیابی اور افغان مہاجرین کے ایشوز کو اجاگر کرے گی اور انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی کا رستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش ہوئی اور صوبائی و قومی نشستوں پر ہیرا پھیری کرکے بی این پی کے کئی نشستیں چھینی گئیں، مگر بلوچستان کے باشعور عوام نے صوبائی اور قومی اسمبلی کے نشستوں پر بلوچستان نیشنل پارٹی کو کامیاب کرکے یہ واضح پیغام دیا کہ بی این پی ہی بلوچ عوام کی حقیقی قوم دوست، وطن دوست، راج دوست جماعت ہے اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی نے پہلی بار قبائلی سیاست کے گڑھ رخشان ڈویژن میں قبائلی بُت پرستی کی سیاست کو تاراج کرکے یہ ثابت کردیا کہ رخشان ڈویژن قوم دوستی و وطن دوست سیاست کا خواہاں ہے اور یہ میر گل خان نصیر اور آزات جمالدینی ؛ ٹکری ہاشم مینگل؛ نصیر کبدانی؛ کا خطہ سیاسی و فکری شعور و دانش آموزی کی سیاست سے بے بہرہ نہیں ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی نے الیکشن کے پراسیس میں کامیابی کے بعد چونکہ پارلیمانی سیاست کا خاصہ جوڑ توڑ و سیاسی جمہوری حکمت عملی ہے کہ کس جماعت یا کس اتحاد کے ساتھ حکومت بنائی جائے یا اتحاد یا حمایت کی بنیاد پر اپنے لوگوں اپنے صوبے کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے اس سلسلے میں پی ٹی آئی کی قیادت نے بلوچستان نیشنل پارٹی سے رابطے کئے اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی قیادت نے پی ٹی آئی کی قیادت کے سامنے چھ نکات رکھے کہ ان مسائل کو حل کئے بغیر بلوچستان کی سیاسی معاشی ؛ سماجی ؛ ساحلی و معدنی معاملات میں بہتری آنا ممکن نہیں اور ان نکات پر عمل کرکے ہی صوبے میں سنجیدہ و پر امن معاملات وفاق اور صوبے میں برابری کی بنیاد پر مسائل ہوسکیں گے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلا نکتہ مسنگ پرسنز کا تھا، جسے آج بھی بی این پی نے اولیت دی ہے اور اب تک کئی نوجوان بازیاب بھی ہورہے ہیں جو کہ ایک مثبت عمل ہے بلوچستان نیشنل پارٹی کے اس عمل و جدوجہد سے کہیں دور کے تو پہلے خائف تھے، مگر کچھ اپنوں نے بھی جو وفاقی سیاست کے قائل ہیں اور نام کے سامنے بلوچستان لکھنے سے بھی خوف زدگی کا شکار ہیں اب سوشل میڈیا میں نشتر برسانے کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے چھ نکات مسترد ہوچکے ہیں؛ بلوچستان نیشنل پارٹی ایک قوم دوست سیاسی جماعت ہے جس کے مضبوط و موثر موقف بلوچستان کے ہر ذی شعور، ذی فکر، ذی ہوش و پُر اذہان مخلوق کے سامنے ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے ہر سیاسی جمہوری عوامی و پارلیمانی فورم پر بلوچستان کے مجوزہ مسائل جو چھ نکات میں قیود ہیں ان پر ببانگ دہل آواز بلند کی ہے اور انہی پاداش میں کئی نوجوان شہید، کئی پابند سلاسل اور کئی نوجوان آج بھی غائب ہیں۔

بلوچستان اسمبلی میں بی این پی کے پاس پاور شیئرنگ کے آپشن موجود تھے، مگر بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپوزیشن میں بیٹھ کر بلوچستان کے عوام کی خدمت کا فیصلہ کیا اور وفاق میں وزارت کی آفر ہونے کے باوجود چھ نکات رکھ کر ان پر عمل درآمد کرنے کا موقف اپنایا اور بارہا اسمبلی فورم پر پی ٹی آئی حکومت کو یاددہانی کروائی گئی کہ ہماری جمایت ان نکات سے وابستہ ہیں، اگر ان نکات پر عمل در آمد ہوگا تب بلوچستان نیشنل پارٹی حکومتی اتحاد کا حصہ بنے گی، مگر وہ قوتیں جنہوں نے سابق دور میں کم سیٹیں رکھ کر بھی بلوچستان میں وزارتیں لیں مراعات لیں اور ان کے دور میں بلوچ نوجوان لاپتہ ہوئےگر ہوس اقتدار میں ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ماما قدیر کا کیمپ ان کے نظروں سے اوجھل تھا، آج جب سردار اختر جان مینگل اور بلوچستام نیشنل پارٹی نے مسنگ پرسنز کے ایشوز کو ہائی لائٹ کیا اور پر امن جدوجہد کے ذریعے بلوچ ماوں بہنوں کے جگر گوشے بازیاب ہورہے ہیں اور اب ان کو لگ رہا ہے کہ ان کی سیاسی نیا ڈوب چکی ہے، بلوچستان کے عوام ان سودے باز قوتوں کو مسترد کرچکے ہیں، تب آسمان کی طرف تھوک کر اپنا چہرہ خراب کررہے ہیں، آج بلوچستان نیشنل پارٹی کے مخالفین بھی بلوچستان نیشنل پارٹی کے بہتر حکمت عملی کی داد و تحسین دے رہے ہیں، تب بی این پی مخالف گروہوں کو لگ رہا ہے کہ بلوچ سماجی میں ان کے لیے سیاسی اسپیس تنگ یوچکی ہے اور ایسے میں توتکار چیخیں نکلیں گی۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سامنے مشکلات و مصائب کے باوجود بلوچ عوام نے رائے دہی میں واضح کیا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی ہی بلوچستان کے عوام کی آخری جمہوری سیاسی آواز و سیاسی طاقت ہے جو اقتدار و اختیار کے لیے ان کے بیلٹ و انگوٹھے کا سودا نہیں کرے گی گوکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سامنے وفاق میں وزارتیں اور کئی دیگر مراعات رکھی گئی مگر بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچ عوام کی پاسبان جماعت ہےباور بلوچستان نیشنل پارٹی کے فیصلوں اور اصولوں میں شامل ہے سب سے پہلے بلوچ و بلوچستان۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔