اقوم متحدہ جنرل اسمبلی کے صدر کا دورہ اور بلوچ مسنگ پرسنز – میار بلوچ

311

اقوم متحدہ جنرل اسمبلی کے صدر کا دورہ اور بلوچ مسنگ پرسنز

میار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج بلوچ مسنگ پرسنز کی لواحقین کی جانب سے لگائے گئے کیمپ کو 3466 دن ہوچکے ہیں ـ اس طویل جدوجہد کو باریک نظر سے دیکھا جائے تو وہ انتہائی کٹھن اور سخت و مشکل حالات میں اپنے جدوجہد میں ثابت قدم رہے ہیں ـ انکے لواحقین نے سردی اور گرمی کے موسم میں بھی انتہائی مشکل حالات گزارےـ اس جدوجہد کو مزید آکسیجن فراہم کرنے کےلیئے 1000 کلو میٹرکے لگ بھگ پیدل مارچ کیا گیا، کوئٹہ تا کراچی کراچی تا اسلام آباد تاکہ اقوم متحدہ سمیت تمام عالمی قوتوں کو اس مسئلے پر متوجہ کرسکیں ـ

اب میں آتا ہوں اپنے موضوع کی طرف، مجھے بہت خوشی ہوئی 40 ہزار سے زائد بلوچ لاپتہ افراد میں سے 15 لوگوں کو بازیاب کیا گیاـ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انکو تو بہت پہلے بازیاب پونا چاہیئے تھا، اگر ان پر جو الزام عائد تھے، اُنکو براہ راست عدالتوں میں پیش کیا جاتاـ جو جُرم ان پر عائد تھے، جُرم کے مطابق انکو سزا دیا جاتاـ مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ پاکستان کے آئین کے مطابق ان پر کوئی جُرم ثابت نہیں ہوا تھاـ بلکہ بزرو جبر و طاقت انکو لاپتہ کرکے (investigation) کے بعد بےگناہ لوگوں کو سالوں سال قید میں رکھا گیاـ

اب جبکہ اقوم متحدہ کے جنرل اسمبلی کے صدر پاکستان کا Visit کرنے آرہی ہے، جو بے گناہ بلوچ لاپتہ افراد کو سالوں سال قید و زندانوں میں بند کرکے رکھا گیا تھاـ فوری طور پر ان میں سے ایک درجن لوگوں کو بازیاب کیا گیاـ اور وزیر اعلٰی کی جانب سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قائدین کے ساتھ ایک ہنگامی پریس کانفرس کی جاتی ہے اور اس میں ہمدری ظاہر کی جاتی ہے اور اس میں ایک معاہدہ طے پاتا ہےـ

اس پورے چال کا مقصد صرف اور صرف بلوچ مسنگ پرسنز کے مسئلے پر اقوم متحدہ کے وفد کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے اور یہ تاثر پیدا کیا جائے کہ تمام لاپتہ افراد کو رہا کیا جا رہا ہےـ اگر یہ بات ہے، پھر جو لوگ دس سال سے زائد لاپتہ ہیں انکو کیوں منظر عام پر نہیں لایا جاتا؟ جن کو لاپتہ کرکے، انکے گھر والوں کو کرب میں مُبتلا کرکے پھر انکو بدترین تشدد کے بعد بازیاب کیا جاتا ہے۔

بلوچستان میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے کہ جو بھی حق اور سچ کی بات کرے اُسے لاپتہ کیا جائے گا اور جو لاپتہ افراد کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرے، اسکو بھی ہمدردی کی پاداش میں لاپتہ کیا جاتا ہےـ جب کچھ لاپتہ افرادوں کو بازیاب کیا گیا تو سوشل میڈیا میں بات رچایا گیا کہ یہ فلاں سیاسی پارٹی کی محنت و برکت ہے، یہ فلاں شخص کے مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہےـ اگر ان تمام باتوں کو مدظر رکھ کر ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہےـ سیکڑوں لاپتہ افراد جو قید و زندانوں میں بند ہیں، بجائے بازیابی کے انکی اجتماعی قبریں، دریافت کی جاتی ہیں، ہم اسکا کریڈٹ کس کو دیں؟ یہ پھر کس کی جدوجہد کا نتیجہ ہے؟

میں کہتا ہوں اگر اس میں کسی نے ذاتی طور پر یا سیاسی پارٹی کی طور پر انکےلواحقین کے ساتھ ہمدردیاں کی ہیں، یہ انکا فرض ہے، اسطرح کے انسانی المیے پر انسان ہی ایک دوسرے کے ہمدرد ہو سکتے ہیں ـ اگر جو بھی بازیاب ہوا یہ انکے لواحقین , ماما قدیر، نصرالله بلوچ انکے تمام ساتھیوں کی جدوجہد اور اس تسلسل کو برقرار رکھنے کا نتیجہ ہےـ

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔