افغان وزیر دفاع اسد اللہ خالد پر پابندی عائد کی جائے – ہیومین رائٹس واچ

686

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنطیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے افغانستان کو امداد فراہم کرنے والے کلیدی عطیات دہندگان پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کے نو تعینات شدہ قائم مقام وزیر دفاع پر مبینہ جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی پر پابندیاں عائد کریں۔

بین الاقوامی خبررساں ادارے کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے طالبان کے شدید مخالف اسداللہ خالد کی تعیناتی نے انسانی حقوق کی تنظیموں میں تشویش کی لہر دوڑا دی تھی، جن کے مطابق اسداللہ خالد غزنی اور جنوبی قندھار کے گورنر کے طور پر اقدامِ قتل، تشدد اور منشیات کے کاروبارمیں ملوث تھے۔

اس سلسلے میں ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ اس بات کے معتبر شواہد موجود ہیں کہ اسداللہ خالد اپنے حکومتی عرصے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں۔

ایچ آر ڈبلیو ایشیا کے ڈائریکٹر براڈ ایڈمز نے امریکا اور کینیڈا سمیت دیگر عطیات دہندگان ممالک سے اسداللہ خالد پر پابندی لگانے، ان کے اثاثے منجمد کرنے اور ملک میں داخلہ نہ دیے جانے کا مطالبہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین اور دیگر عطیات دہندگان کو بھی اس قسم کی پابندیوں کا اطلاق کرنا چاہیے تا کہ ایک واضح پیغام مل سکے کہ انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کے مرتکب شخص کی اہم عہدے پر واپسی ناقابلِ قبول ہے۔

دوسری جانب اسداللہ خالد ، جو نیشنل ڈائریکٹوریٹ فار سیکیورٹی کا شعبہ سنبھالنے کے بعد 2012 میں طالبان کے خود کش حملے میں بال بال محفوظ رہے تھے، نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں سیاسی قرار دیا۔

ان کی اور طالبان کے ناقد امراللہ صالح کی بطور وزیر داخلہ تعیناتی امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی رفتار تیز ہونے کے تناظر میں کی گئی ہے کیوںکہ طالبان امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں اشرف غنی کی حکومت کی شمولیت نہیں چاہتے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اسداللہ خالد کی تعیناتی 17 سالہ جنگ کے پر امن اختتام میں مشکلات پیدا کرے گی، جبکہ اس قسم کی افواہیں بھی زور پکڑ رہی ہیں کہ صدارتی انتخابات سے قبل اشرف غنی بڑے مخالفین کو اپنی طرف کر کے مخالفین کو غیر جانبدار بنانا چاہتے ہیں۔