سعودیہ کی سی پیک میں متوقع سرمایہ کاری اور بلوچ سیاسی حکمت عملی – نادر بلوچ

255

سعودیہ کی سی پیک میں متوقع سرمایہ کاری اور بلوچ سیاسی حکمت عملی

تحریر : نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ گل زمین چاروں طرف سے بین الاقوامی سازشوں میں گہر چکی ہے۔ اور دن بہ دن بلوچ قوم کے خدشات درست ثابت ہوتی جارہی ہیں۔بلوچ قوم ایک طرف پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف بر سرء پیکار ہے تو دوسری جانب چائنیز کالونیل ازم کو روکنے کے لیے نبردآزماء ہے۔ سازشوں کے جال متواتر بنتے جارہے ہیں، جس میں حالیہ اضافہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کیلیے مذاکرات ہیں۔ ایسے اقدامات یقینی طور پر بلوچ سیاسی کارکنوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ پاکستان کی بگڑتی ہوئی معیشت، سی پیک سے وابستہ امیدوں پر پانی پھرتی ہوئی بلوچ مزاحمت دشمن کے ارادوں کو کمزور کرتی جارہی ہیں تو دوسری جانب وہ چائنا کی فنڈز میں سی پیک جیسا انسانیت و بلوچ دشمن پروجیکٹ ناکام ہوتی دیکھائی دے رہی ہے۔ جسکی وجہ سے سعودی عرب کو بھی اس ناکام منصوبے میں شامل کر کے کچھ سالوں کیلئے پاکستان اپنی مرتی ہوئی معیشت کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔جس میں اب اسکو کامیابی ملنی ناممکن ہے۔

بلوچ قوم کی بے لوث قربانیوں کی بدولت آج دنیا پاکستان کا مکروہ چہرہ جان چکی ہے۔ CPEC جیسا انسانیت اور امن دشمن منصوبہ اب قریب المرگ ہے، جو بلوچ قومی جہد کے لیے ایک بڑی کامیابی ثابت ہوگی۔ اب ان عوامل پر غور کرنا ہوگا جو قابض ریاست اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی حتی الوسع کوشش کر رہی ہے تاکہ اس منصوبے میں دیگر ممالک شامل ہوں اور بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار سے پنجاب کی کفالت کی جاسکے۔ اب پاکستانی عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی کو کنٹرول کرنے کا کوئی طریقہ کارگر ثابت نہیں ہو رہی جسکی وجہ سے فوج سرعام سیاست وانتظامی معملات کو اپنے ہاتھ میں لے چکی ہے لیکن حالات مزید ابتر ہوتی جارہیں ہیں۔ چائنا سے 50 ارب ڈالر قرضہ لیکر پنجاب کے حکمرانوں اور فوجی جرنیل، ہڑپ کر چکی ہیں۔ ان قرضوں کی واپسی شروع ہورہی ہے جس کے لیے پاکستان اب آئی ایم ایف کے پاس جارہی ہے۔ لیکن اس کوشش کو تب جھٹکا لگا جب امریکہ نے IMF کو پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے فنڈز جاری نہ کرنے کیلئے تنبیہہ کی۔

آئی ایم ایف اپنے شرائط پر پاکستان کو قرضہ دینے پر راضی ہوچکی ہے، ان معلوم شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ قابض ریاست اس قرضے سے چائنا کو ادائیگی نہیں کرے گی۔پاکستان آئی ایم ایف یا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے امداد کی رسمی درخواست کرچکی ہے جس کا تخمینہ $ 6 بلین ڈالر سے زائد $ 12 بلین ڈالر ہوسکتی ہے، یہ 1988 سے اس ملک کا 13 ویں قرض کا پروگرام ہوگا. لیکن اس بار قرض کی شرائط سخت ہوسکتی ہیں، بشمول قرض کے استعمال پر جانچ پڑتال بھی کی جاۓ گی۔ اس سے روپے کی قیمت گرے گی-

آئی ایم ایف کے مشاہدات میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان چینی قرضوں کی شرائط شائع کرے گی. اس بار پاکستانی فوج بھی فکر مند ہے، خاص طور پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس سال کے آغاز سے ہی پاکستان کو فوجی امداد کا خاتمہ کیا ہے۔ ایک اقتصادی طور پر پریشان پاکستان کا مطلب یہ ہے اس ملک میں بے چینی بڑھتی رہے گی اور چین کے اثر و رسوخ میں رہنا پڑے گا.

پاکستان میں عمران خان کی حکومت بھی پاکستانی فوج کی ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو کسی بھی سیاسی مشکل سے بچنے کیلئے اس کو اقتدار دے کر براہ راست جی ایچ کیو کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ جس کے لیے فوجی حکمرانوں نے عمران خان کے ساتھ سعودیہ کی زیارت کی۔ سعودی حکمرانوں نے چند مخصوص شرائط پر پاکستان کو قرضہ دینے کی بات کی وہ شرائط کیا تھے ہر ذی شعور جانتا ہےلیکن اس وقت حالات ایسے نہیں کہ پاکستان ایک تھالی سے کھائے اور نظر دوسری تالی پر ہو۔ لیکن بہت جلد سعودیہ اور پاکستان کو پیچھے ہٹنا پڑا، اسکی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں جن میں سے ایک اہم پہلو امریکہ کہ جانب سے سعودیہ کو کسی بھی ایسے معاشی یا عسکری منصوبے سے بعض رکھنا ہے جس میں چائنا براہ راست ملوث ہو۔ موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو امریکہ کی جانب سے چین کے ساتھ تجارتی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ چِین کو صرف امریکہ سے تجارت پر اب ڈھائی ارب ڈار ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ جس میں آنیوالے برسوں میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔چین میں امریکی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کرکے چین کے معشیت کو چار چاند لگایا ہے۔ اب اس تجارتی جنگ کی وجہ سے اپنی درآمد اور برآمدات میں کمی پر مجبور ہوسکتیں ہیں۔

پاکستانی معاشی اور فوجی اہلکاروں نے گوادر اور بلوچستان میں لوٹ کھسوٹ کیلئے جو پالیسی بنائی تھی اس میں چینی حکام کو یہ باور کرائی گئی تھی کہ ان منصوبوں کو پانچ سال کی مدت میں پورا کر پائیں گے اور ساتھ ہی بلوچ قوم کی سیاسی اور مزاحمتی محاز کے بارے میں غلط اعداد و شمار دی تھی تاکہ چین بلوچستان میں سرمایہ کاری کیلئے پاکستان کی مدد کرے۔ بلوچ قوم کی شعوری کوششوں نے ان عزائم کو روکے رکھا ہے۔ جسکی وجہ سے بعض دفعہ پاکستانی جرنیلوں کو چین یاترا کرکے سیکورٹی مزید سخت کرنے کی یقین دہانی کروانی پڑی۔ صرف گوادر کیلیے دس ہزار فوجیوں پر مشتمل دستے تشکیل دیے لیکن موجودہ صورتحال اور مسلسل مزاحمت نے اس سیکورٹی پلان کو بھی خاک میں ملا دی ہے۔

بلوچ قومی تحریک آزادی کی جہد ہر گزرتے لمحے اقوام عالم کو اپنی طرف متوجہ کرتی جارہی ہے۔ اسکی وجوہات بلوچ قوم کی جانب سے چینی اور پاکستانی یلغار کو روکنے میں کامیابی ہے۔ چین نے سی پیک جیسی دیگر منصوبہ سری لنکا، انڈونیشیا میں بھی شروع کی وہ مکمل ہو کر چین کے استعمال میں آچکی ہیں۔ ان ممالک پر چین کے قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا کہ سری لنکا کو اپنی تجارتی بندرگاہ لیز پر دینا پڑ گیا۔ بلوچستان میں بھی چین کو قرضہ واپس کرنے کیلئے ایسا قدم اٹھانا پڑسکتا ہے لیکن کیا چین ایسا کر سکتا ہے؟ بلوچ قومی تحریک کی آدھی کامیابی چائنا، پاکستان، اکنامک کاریڈور کی ناکامی ہے جس میں بلوچ نوجوان کافی حد تک کامیاب ہوچکی ہیں، بس اب زرا سا انتظار باقی ہے۔

سیاسی معاملات پر سیاسی تنظیموں کو حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی۔ تحریک کیلئے دوست بنانے کی حکمت عملی اپنانی ہوگی نہ کہ دشمن بنانے سے بلوچ قوم کے مسائل حل ہوں گے بلکہ جہاں جیسی حکمت عملی قومی مفاد میں ہوں اپنانے چاہیئے۔ ان حالات میں بلوچ قوم،قومی تنظیموں،اور سیاسی کارکنوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مزید بہتر پالیسوں کو اپنائیں جن سے سعودیہ سمیت دنیا کی دیگر اقوام کو پاکستان جیسی قبضہ گیر ریاست جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہے اسکی اصلیت بتانے کیلے متحرک کردار ادا کریں۔تمام سیاسی اور ڈپلومیٹیک چینلز استعمال کی جائیں۔ دنیا بھر میں قائم سعودی سفارت خانوں کو پاکستانی ظلم و جبر کی یاداشتیں پیش کی جائیں۔ سیاسی حکمت عملی،احتجاجی مظاہروں اور دیگر دستیاب وسائل کے بہتر استعمال سے بلوچستان کی موجودہ صورتحال سے دوسرے ممالک کو حالات سے متعلق شعور و معلومات میں اضافہ ہوگا اور کسی بھی غیر سیاسی و ناممکن معاشی پالیسوں میں شامل ہونے سے بعض رکھے گی۔

 

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔