دنیا کا کم عمر ترین قیدی آفتاب بلوچ – پیردان بلوچ

797

میں اعتراف کرتا ہوں مجھ سمیت میرے جیسے بہت سے لوگ بے حس ہوچکے ہیں ہمارے اندر کا انسان نما جانور کب کا مر چکا ہے ہم سب خوش اس لیے ہیں کہ ابھی تک قبروں میں نہیں اتارے گئے ہیں اور کھبی کھبار احساس ضمیر کو ایسے دبوچتا ہے کہ چیخنا چاہو بھی تو چیخ حلق سے نکلتے نکلتے راستے میں ہی دم توڈ دیتی ہے۔

کچھ لکھنا چاہوں تو جیسے الفاظ احتجاج کرتے ہوں لفظ آواز بن کر کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہوئے لکھنے سے باز رکھتے ہیں
اور کھبی کھبار خود اپنی قبر کھودنے اور اس میں لیٹ کر اپنے اوپر مٹی ڈال کر ہمیشہ راہ فراراختیار کرنے کو دل کرتا ہے ہماری یہ بے حسی ہمیں روز دھیمک بن کر اندر ہی اندر چاٹ رہی ہے دن کے اجالے میں اندھیرے کا گماں ہوتا ہے جیسے ہر شے کتابیں قلم ٹیبل پر رکھی سگریٹ کی ڈبیاں گھر میں موجود دیگر فرینچر تمہارے جنازے میں آئے ہیں اب بس تمہیں لحد میں اتارنے والے ہیں اس وقت میرے لیپ ٹاپ کے سکرین پر آفتاب بلوچ کی تصویر ہے جو مجھ سے محو گفتگو ہے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا ہے اور میں اس سے آنکھیں نہیں ملا پا رہا ہوں آفتاب بلوچ کے کسی سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے آدھا جواب بھی نہیں ۔

بس اتنا جانتا ہوں کہ آفتاب تمہارا جرم بس یہ ہے کہ تم بلوچ ہو۔

کراچی سے 28 اکتوبر 2017 کو رینجرز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے نو سال کا آفتاب بلوچ تاحال لاپتہ ہے۔

آفتاب چالیس دن کا تھا جب اس کو جنم دینے والی ماں جمال خاتون یرقان کی بیماری سے فوت ہوگئی ۔۔

لاپتہ ہونے کی رات تک آفتاب اس بات سے بے خبر تھا کہ اسکو جنم دینے والی ماں کوئی اسے جنم دینے کے چالیس دن بعد اس جان فانی سے رخصت ہوگئی تھی۔۔

بلوچ مزاحمت کاروں اور ریاست پاکستان کی لڑائی میں شدت آنے کہ بعد بلوچستان کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے خضدار سے آفتاب اپنے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ 2005 کوکراچی آیا ۔۔

اور اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا یہ نو سال کا بچہ اس وقت پاکستانی ٹارچر سل میں کاٹ رہا ہے ۔

جہاں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں میڈیا عدلیہ سمیت آفتاب بلوچ کے رشتہ دار اس ننھی سی جان کے مسخ شدہ لاش کے ملنے کے منتظر ہیں۔

آفتاب بلوچ کا رنگ برنگی بستہ اسکی کتابیں پنسل کاپیاں گھر کے کونے میں پڑھے اپنے دوست کے مانو انتظار میں ہیں ۔۔تمہارا فٹ بال الماری کے اوپر لاوارثوں کی طرح ساکن پڑا ہے تمہاری جرابیں اسی حالت میں بستے کے اندر ہیں جب تم نے اسکول سے آتے ہوئے اپنے بستے میں رکھے تھے ۔۔۔

آفتاب یقین کرو اگر یہ اشیا جاندار ہوتیں اور انھیں تمہاری پاکستانی فورسز کے ہاتھوں گمشدگی کا علم ہوتا تو ان کی چیخیں حشر برپا کرتے ۔

مجھے یہ خیال بھی بے چین کررہی ہے کہ اس نو سال کے بچے سے یہ ریاستی ادارے جن کہ کہے پر موت لکھ دیا جاتا ہے کیا سوال کرتے ہونگے ؟؟

اور آفتاب بلوچ کو اگر یہ جواب نہ آتے ہوں تب اس کے ساتھ بھی وہی ہوتا ہوگا جو وہاں سے نکل کر اپنے ساتھ ہونے والی داستانیں، تشدد کے طریقہ کار کو ٹھیک سے بیان تک نہیں کر سکتے ۔

سوچتا ہوں ایک ریاست کو ایک اٹیمی طاقت کو دنیا کی ساتویں بڑی آرمی رکھنے والے ملک کو ایک بچے سے کیا خطرہ تھا جو رات کی تاریخی میں نقاب پہنے درجنوں نفری کے ساتھ آئے اور اس بچے کو لے گئے ۔

ایک اور سوال میرے زہن میں دستک دے رہی ہے کیا آفتاب اس رات سے اب تک سویا ہوگا یاپھر اس کے ہاتھوں میں بندھی زنجیروں کے شور سے اسے نیند نہیں آتی ہوگی ۔۔

آفتاب کے چھوٹے زہن میں کیسے سوال آرہے ہونگے ؟ کیا اب تک اسے پتہ چل گیا ہوگا کہ اس کا جرم بلوچ ہونا ہے اور وہ کسی اور کے حصے کا تشدد اپنی کمزور جسم پر برداشت کررہا ہے ۔۔

میرے دوست یہ جو میڈیا ہے نہ اس کو وینا ملک کے لیپ اسٹک اور عمران خان کے ناشتے میں بسکٹ سے مطلب ہے تمہاری پس زندان کی کہانی نہیں بکے گی کیونکہ تمہاری کہانی اس ریاست کی بدنامی کا سبب بنے گی ۔

سوشل میڈیا کے ایکٹوسٹ بھی اب تم سے ہمدردی نہیں رکھ سکتےکیونکہ سب ڈرے ہوئے ہیں اس ریاست سے ریاست کے ان باولے درندوں سے کوئی کچھ نہیں بولے گا مورخ بھی نہیں لکھے گا لاپتہ آفتاب کی کہانی اسے بھی لاپتہ کردے گی ۔۔

آفتاب اگر تم زندہ ہو تو کب کہ بوڑھے ہو چکے ہوگے ۔۔ سوچ بوڑھا کرتی ہے وقت سے پہلے ۔۔

تم بس ثابت قدم رہنا آفتاب کو طلوع ہونا ہی ہے ہر روز طلوع ہونا ہے اور تم ان آئینی سلاخوں کو شکست دے کر نکلو گے اگر ایسا نہ ہوا تو مورخ کے بجائے ٹارچر سیل کی دیواریں لکھیں گی تمہاری کہانی ۔۔۔ ننھے ہاتھوں کی ہتھکڑیاں سنائیں گی تمہاری داستان ۔۔۔۔ وہ داستان جس کہ کردار تم تھے ہی نہیں تمہیں گھسیٹا گیا ہے اس کہانی میں ۔۔۔