سُورماِ جنگی ۔ زیردان بلوچ

442

سُورماِ جنگی

تحریر: زیردان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کہتے ہیں شہادت کی موت کی خواہش یقیناً انسان کے دل میں رہتا ہے مگر شہادت کی موت انقلابی کی عملی زندگی کا بہرہ یاب ہوتے نصیب کے دھنی کو ملتی ہے، بلکہ خواہشِ زیست سے نہیں۔۔۔۔۔۔۔ جنگی جان نے بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں کم عمری میں شامل ہو کر گراں بہا قربانیوں سے لیکر عظیم رتبہِ شہادت تک خود کو تاریخ کے سنہری صفحوں میں خود کو تاحینِ حیات زندہ رکھا۔

انقلابی نوجوانوں میں سے ایک نوجوان جنگی جان عرف عیسیٰ تھا جنہوں نے کم عمری میں قابض ریاست کی طرف سے ظلم و بربریت کو دیکھ کر ناقابلِ برداشت ہو کر اپنی قوم اور سرزمین کی دفاع کی خاطر دشمن کو شدت کے ساتھ فولادی و نقصان رسا قومی سپاہی بن کر میدان میں آیا۔۔

جنگی جان کی شہادت کا سُن کر رنج انگیز ضرور ہوا ایک خوبصورت اور باعمل دوست ہم سے جسمانی طور پر ہمارے درمیان میں موجود نہیں رہا لیکن آزادی کی جنگ اور قربانی کے فلسفے کو دیکھتے ہی دُکھ درد کم محسوس ہونے لگتا ہے یہی جگرداروں کی جنگجوئی تھی وہ ہر محاذ پر دشمن کے خلاف لڑتے رہے جب سرزمین کو خون کی ضرورت رہی تو جنگی جان نے منہ نہیں موڑی اور سینہ تھان کر دشمن کو آوازِ سخت سے للکارتا رہا، جب انقلابی بندوق اٹھاتا، اور میدان میں اُترتا ہے تو اسے موت کی ڈر نہیں رہتا، انقلاب کی دیوی کو جب خون کی ضرورت رہتا ہے یہ جان ایک بار تو کیا پھر ملے سرزمین کے لیے قربان۔۔۔۔۔

ایک انقلابی جب میدان میں آتا ہے دشمن کے آمنے سامنے ہوتے وقت یہی خواہش رہتا ہے اگر میں شہید کیوں نہ ہو جاؤں لیکن دشمن کو چین سے نہ جینے دیں نہ رہنے، باکردار و بہادر انقلابی کو پتہ ہوگا آج اگر نہیں کل ایک ایسا سورج طلوع ہوگا اور تاریخ اپنا رُخ موڑ لیتا ہے تو ہمارے خون رائیگان نہیں جاتے ہیں۔ وہ ایسا دن ہوگا ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں اور قوم اپنے شہیدوں کو جس اندازِ محبت اور احترام سے یاد کرتے ہیں تو ہم یہی سمجھیں گے ہمارے گرے خون کے ایک ایک خطرے بے کار نہیں گئے۔

تاریخ خود کو انقلابی راجندر ناتھ کے بارے میں دہراتی ہے۔ پھانسی سے چند گھنٹے قبل ڈیوٹی پر موجود برطانوی جیلر انہیں ورزش کرتے دیکھ کر حیران ہوتے ہوئے غَور فکر میں پڑتا ہے۔

“راجندر ناتھ ہنستے ہوئے اس سے کہتا ہے ورزش میرا روزانہ کا اصول ہے میں موت کے ڈر سے اصول کیوں چھوڑ دوں”
میں نے جب پہلی دفعہ جنگی جان کو دیکھا بہت چھوٹا تھا اگر یاد ہو دوہزار تیرہ کا خون ریز سال تھا بلوچستان کے بہت سے علاقوں کو زلزلہ نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا کئی معصوم لوگوں نے اپنی قیمتی جانوں کو گنوا بیھٹے تھے، جب میں نے جنگی کو دیکھا تو اسے ایک سرمچار کی روپ میں پایا، میں دو یا تین دن جنگی جان کے علاقے میں رہا وہ ایک بہترین دوست کی طرح ملتے رہے۔
جب جنگی جان کو دیکھتا وہ معصوم نگاہوں کے ساتھ خاموش ملتے تھے میں کہتا عیسیٰ ہم اتنے دنوں تک ایک ساتھ رہیں ہیں لیکن آپ ہر وقت خاموش ہو، ایک اور دوست نے کہا جنگی اور خاموشی لیکن ہاں میں بھی دیکھ رہا ہوں خود کو کس طرح معصوم پیش کر رہا ہے جنگی جان کا جواب پھر سے ایک دل جیتنے والی مسکراہٹ رہا۔۔۔۔؎

اسی طرح وقت گزرتا رہا اور مدت ممتد تک جنگی جان سے ملاقات نہ رابطہ ہوئی تھی، ایک دن جب کسی دوست سے معلوم ہوا جنگی کی شادی ہوئی ہے آپ کو معلوم ہے میں نے کہا ہاں سنا تھا لیکن اگر آپ کے پاس اُن کا رابطہ نمبر ہوگا تو بیج دینا، دوست نے نمبر بیجا اور ہماری ایک دفعہ پھر سے حال احوال ہوا اور میں نے اتنا کہا آپ نے شادی کی اور ہمیں اطلاع بھی نہیں دی، ایک خوبصورت ہنسی کے ساتھ کہا مجھے معلوم نہیں آپ کہاں ہو اور کتنی مدت کے بعد رابطہ ہو رہا ہے، اسی طرح بعد میں ایک دو دفعہ رابطہ ہوا تھا کہ اچانک رابطہ منقطع ہوا۔

لیکن مجھے معلوم نہ تھا ایک ایسا دن آئے گا جنگی جان اپنے جزبہ آزادی سے سرشار ساتھیوں کے ساتھ قربانی کی دیوی کو اپنے خون سے سیر آب کرکے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اور آزادی کی تحریک کو اپنی لازوال قربانیوں کی بدولت بلندیوں تک پہنچا کر خود تاریخ کے بیش بہا صفحوں میں امر ہونگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں