ہزاروں سالہ تاریخ میں انسان مختلف ارتقائی مراحل سے گذرا ہے کبھی جنگلات اور پہاڑوں میں آباد رہا تو کبھی مِل جُل کر بستیوں کی صورت میں رہنے لگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ زبانیں بنیں اور پھر کیا تھا کہ ارتقاء کا پہیّہ گھومتا رہا پھر دیکھتے ہی دیکھتے انسان مختلف قوموں ملکوں اور براعظموں میں تقسیم ہوگیا. وقت بدلتا گیا اس کی ترجیحات بھی تبدیل ہوتی رہیں, اسکی ظاہری شکل و صورت کے ساتھ ساتھ اسکی دماغی نشوونما اور سوچنے کی صلاحیت میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں, اور ان تمام تر اَدوار میں انسان نے سب سے زیادہ جس سوال کو سمجھنے کی کوشش کی وہ ‘زندگی کا مقصد’ تھا.
کسی نے اُسے مذہب میں تلاش کیا اور خود کو خُدا کی مخلوق کے طور پہ پہچانا تو کسی نے مذہب بیزار ہو کے خدا کو انسانی ذہن کی ایجاد کے طور پہ سمجھنے کی کوشش کی. لیکن ان تمام تر مسائل میں جکڑا ایک عام انسان پھر بھی کنفیوز رہا کہ ہم کون ہیں اور ہمارا آخر یہاں آنے کا مقصد کیا ہے, آیا ہمارے لیئے یہ زندگی ہی سب سے زیادہ اہم ہے جو ہمیں بِن مانگے عطا کر دی گئی ہے یا اس زندگی سے بھی زیادہ عزیز کوئی مقصد ہو سکتا ہے؟
مجھ جیسا عام انسان بھی بچپن سے ان سوالوں کے گرداب میں رہا. چونکہ تعلق شدید مذہبی گھرانے سے تھا اس لیئے مذہبی شدت پسندی کو انتہائی قریب سے دیکھا, لیکن وقت کے ساتھ ساتھ روشن خیالی جیسا عنصر بھی پروان چڑھتا گیا اور زندگی کا کافی حصہ “live and let live” جیسے فلسفے پہ گزرا.
پھر بھی ان تمام تر صورت حال میں جو شئے مستقل طور پہ ساتھ رہی وہ تھی ‘تجسُس’ یعنی حق اور سچ کو پہچاننے کی جستجو.
کیونکہ بقول شاعر:
جس کے ہاتھوں میں نہیں تشکیک کا کنکر کوئی اُس کو اندازہ کہاں سطح کی گہرائی کا –
سَمے کی لہروں میں تیرتا ہوا مَیں سوالوں سے گِھرا ہوا یہ سوچتے ہوئے کہ مقصد کو تلاشنہ ہے گویا دل و دماغ کے اندر کی کائناتوں کا سفر کر رہا تھا کہ ایک دن ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جس نے زندگی کے ایک نئے زاویے(نیشنل ازم) سے متعارف کروایا جس نے سمجھایا کہ کسی خاص مقصد کے حصول کیلئے انسان زندگی اور موت کے فلسفے سے بھی آگے نکل سکتا ہے. پھر میں تھا اُس عظیم مقصد کی پَرتوں کو کھولتا چلا گیا.
اس مقصد کو پانے کیلئے ایسے کئی کردار سامنے آئے جن کی قربانیوں کو پڑھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے اور رشک کرتا ہے کہ کہاں ہم اور کہاں وہ عظیم ہیروز.
ایسے عظیم کرداروں میں ایک نام بابا خیر بخش مری جسے بلوچ نیشنل ازم کا prophet کہا جائے تو غلط نہ ہوگا وہ اُن چند شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے بلوچ قومی مسئلے کو بہت پہلے سمجھ لیا اور اسکا حل بھی اپنی زندگی میں بتا دیا گویا وہ اپنے آپ میں ایک مکمل فلسفہ تھے. انھوں نے حق توار سٹڈی سرکل کا آغاز کیا جس سے ایک بار پھر بلوچ قومی تحریک کے شعلے کو ہوا ملی اور اسکا ثمر “استاد” کے روپ میں دنیا کے سامنے آیا. وہ جون 2014 میں ہم سے بچھڑے لیکن قوم کے دلوں میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ ہیں.
کیونکہ بقول شاعر:
یہ شخص آج کچھ نہیں پر کل یہ دیکھیو
اس کی طرف قدم ہی نہیں سر بھی آئیں گے
اسکے بعد تو جیسے شہیدوں اور اسیروں کی قربانیوں کے باب کھلتے چلے گئے اور ایسے ایسے نام اور کہانیاں سامنے آتی چلی گئیں یوں لگتا تھا حقیقت سے کہیں دور یہ سب اک فسانہ ہو, کبھی واجہ غلام محمد کی زندگی سامنے آتی تو کبھی شہید رضا جہانگیر کی جوانی, کہیں چیرمین زاہد کا نرم لہجہ آنکھوں کو دھندلہ دیتا تو کہیں شہید قمبرو کا جوشیلا انداز ذہن میں گردش کرتا. اب میں زندگی کے مقصد کو ایک نئے اور خاص انداز سے سمجھنے لگا تھا کہ جب کوئی مقصد اور منزل کو پانے کی جستجو کر لیتا ہے تب زندگی اور موت صرف الفاظ بن کے رہ جاتے ہیں پھر آپکو منزل سے نہ کوئی سُپر پاور روک سکتی ہے نہ طاقت اور اسلحے سے آپکے حوصلے پست ہوتے ہیں.
ان تمام تر چیزوں کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوگیا جس کیلئے شہداء وطن فدا و حمید سے لے کے اسیرانِ وطن ذاکر مجید اور شبیر بلوچ جیسے نوجوان طلبہ نے قربانیاں دیں ہیں اور قربانیوں کا یہ لازوال سلسلہ ابھی تک جاری ہے.
ہزاروں ایسے گم نام کردار بھی گزرے ہیں جنہوں نے اس عظیم مقصد کی خدمات میں اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کیا اور ممکن ہے ہم میں سے انہیں کوئی نہ جانتا ہو کیونکہ ‘دو چار سے دنیا واقف ہے گمنام ناجانے کتنے ہوں۔
لیکن پھر بھی انھوں نے کسی دادو تحسین کی پرواہ کیئے بغیر اپنا سب کچھ اس خاص مقصد کیلئے قربان کر دیا اور ہمیں یہ درس دیا کہ جب بات منزل اور حصولِ مقصد کی آجائے تو شخصیات کوئی اہمیت نہیں رکھتیں
بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں