عظیم ماں اور عظیم بیٹے کی لاش – برزکوہی

818

عظیم ماں اور عظیم بیٹے کی لاش

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

عمومیت کو لبادے کو چاک کرتے ہوئے کچھ ایسے حیرت انگیز اور تاریخی واقعات کبھی کبھار ہمارے سامنے رونما ہوتے ہیں، جو حقیقی ہوکر بھی ہمارے حِسیات پر فسانوں کا گمان چھوڑتے ہیں، سننے اور پڑھنے والوں کو کبھی کبھار افسانوی تصور ہوتے ہیں اور کوئی خواب سا لگتے ہیں۔ اسی لیئے مارک ٹوئن نے کہا تھا کہ ” حقیقت، فسانے سے زیادہ عجیب ہوتی ہے، کیونکہ فسانے کو ممکنات کے حد کا خیال رکھنا پڑتا ہے لیکن حقیقت آزاد ہوتی ہے۔”

وہ کیسا لمحہ ہوگا، وہ کیسی کیفیت ہوگی جب ایک طرف شہید سگار کمانڈر رحیم جان مری عرف کریم کی لاش اپنے جنرل کے پہلو میں باقی چارعظیم دوستوں کے لاشوں کے پہلو میں رکھا تھا، اور اس غم، نفرت، دکھ و تکلیف اور کرب کے ماحول میں اچانک روایتی بلوچی شال اور لباس میں ملبوس رحیم کی بوڑھی ماں ہجوم میں داخل ہوکر ہمت اور حوصلے کے ساتھ بلند آواز میں یہ کہتی ہے “شمارا کل بلوچاں مبارک بی، رحیم اور دومی سنگتانی شہادت” یعنی آپ بلوچوں کو مبارک ہو رحیم اور اس کے دوستوں کی شہادت۔ کسی اور کے لیئے یہ محض ایک جملہ ہوسکتا ہے، مگر ایک ماں کے لیئے اپنے باصلاحیت، باشعور، ہنرمند، بہادر اور نوجوان بیٹے کی لاش پر آکر اس طرح ہمت حوصلے اور مکمل خود اعتمادی کے ساتھ یہ الفاظ ادا کرنا ہرگز اس طرح آسان نہیں، جس طرح میں آسانی سے لکھ رہا ہوں اور کوئی بھی آسانی کے ساتھ ایک جملہ سمجھ کر پڑھ رہا ہے لیکن ماں کی اس وقت کیا حالت ہوگی؟ وہ کس کیفیت سے گذری ہوگی؟ اس کا احساس ضرور کوئی ماں ہی کو ہوگا۔

جنم دیتے ہی ممتا اولاد کے تحفظ کے احساس اور اس کیلئے ہر ممکن سعی کو جبلت میں لیئے ہوئے ہوتی ہے، کوئی بھی جننی چاہے وہ انسان ہو یا کوئی بھی چرند پرند، پہلی بار اولاد کا منہ دیکھنے کے بعد پوری زندگی اسکی تحفظ و نمو کیلئے وقف کردیتی ہے، تحفظ کا یہی احساس کسی بھی صورتحال میں اسکا ردعمل بن جاتا ہے اور وہ کسی بلا سے بھی ٹکراجاتی ہے۔ یہی اٹل فطرت ہے۔ لیکن یہ کیسی محیرالعقول مائیں ہیں، جو فطرت کے پہیئے تک کو بھی پیچھے گھومنے پر مجبور کردیتے ہیں اور اولاد کی لاش پر مبارکبادیں دیتی ہیں اور شادیانے بجاتے ہیں؟

میں حیران ہوں یہ شعور، ایسی علم اور یہ احساس کہاں سے اور کب انسان پر نازل ہوتا ہے؟ کیسے اور کیوں نازل ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے تو کیوں ہوتا ہے، اگر نہیں ہوتا تو کیوں نہیں ہوتا؟

کیا حقیقی علم و شعور اور احساس تعلیمی اداروں اور ڈگریوں کا محتاج ہے؟ کیا مادرء سگار کے پاس کوئی ڈگری ہے؟ نہیں کچھ نہیں مگر پھر بھی علم و شعور اور احساس کا خزانہ موجود ہے؟ وہ کہاں سے ملا ہے اور کیوں ملا ہے؟ سادہ سی بات ہے، قوم اور وطن کے ساتھ مکمل ایمانداری، مخلصی اور محبت سچائی ہی اصل علم و شعور اور احساس کو مزید پختہ کرتی ہے۔

جہاں بھی قوم اور گل زمین کے ساتھ ایمانداری، مخلصی اور محبت سچائی ضعیف ہو تو علم و شعور اور احساس ضرور موجود ہوگا، مگر معذور شکل میں اسی وجہ سے حوصلیں و بے حوصلگی، امید و نا امیدی کی کیفیت ذہن پر سوار ہوتے ہیں۔ ان ڈگمگاتے کیفیتوں میں کوئی بھی اس طرح بلند حوصلہ اور ہمت کے ساتھ بیٹے کی شہادت پر لوگوں کو مبارک باد نہیں دے سکتا۔

میں پھر کہتا ہوں اور یہ ایک مانا ہوا حقیقت بھی ہے کہ علم و شعور اور احساس کی پختگی کا دارومدار وطن پرستی اور قوم دوستی میں ہے بشرطیکہ ایمانداری، مخلصی، سچائی، آخری حدوں کو چھو رہی ہو۔

تحریکوں اور جنگوں میں ایسی مائیں اور بہنیں ہمت اور حوصلوں کے مضبوط چٹان ہوتے ہیں، تحریکوں اور جنگوں کی کامیابی بھی ہمت اور حوصلوں پر منحصر ہوتا ہے، تو ایسی مائیں اور بہنیں بلوچ قومی تحریک کے اثاثے ہوتے ہیں، اس قدر و احترام کے ساتھ ان کے عظیم کرداروں کو اجاگر کرنا قومی فرض ہوتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف ایسی عظیم مائیں اور بہنیں ہیں، جن کی سوچ و اپروچ، علم و شعور اور احساس کی بلندی اس حد تک پہنچ چکی ہے، دوسری طرف ہم جہدکار تحریک سے وابستہ سوچ و اپروچ علم و شعور اور احساس کے حوالے سے کس اسٹیج پر کھڑے ہیں؟ اب بھی ان ہزاروں عظیم ماوں اور بہنوں کی نظر ہم پر ہے، بڑی بڑی توقعات اور امیدوں کے ساتھ مگر کبھی کبھبار ہماری نظر ایسے ویسے چیزوں پر اٹک جاتی ہے، محسوس ایسا ہوتا ہے کہ سوچ و اپروچ اور احساس کے حوالے سے قوم آگے اور ہم پیچھے، اگر خدانخواستہ ایسا ہی ہوا تو یہ ایک تاریخی المیہ ہی ہوگا۔

ایسے ویسے، غیر ضروری چیزوں میں پھنسنے کی بنیادی وجہ علم و شعور اور اجتماعی احساس کے معذوری کےساتھ ساتھ اپنی قومی و تحریکی ذمہ داریوں سے عدم توجگی اور عدم دلچسپی کا شکار ہوکر بیگانہ ہونا ہے۔

مجھے کیا کرنا ہے؟ میری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ میں کیا کررہا ہوں؟ اگر یہ چند سوالات ذہن میں نہ ہوں، صرف تحریک کے ساتھ وابستہ رہنا یا بس حالات کے رحم و کرم پر جانا، ایک تو خود انقلابی عمل ہی نہیں، دوسری طرف ایسے ویسے، خواہ مخواہ اور غیرضروری چیزوں میں پھنس جانا لازمی ہی ہوگا۔

اگر تحریک کے ساتھ وابستہ ہونا ہے، تو صرف وابستگی نہیں بلکہ مکمل، عملاً اور متحرک اور فعال کردار کے ساتھ پھر کبھی بھی علم و شعور اور اجتماعی احساس معذور نہیں بلکہ مذید پختہ ہی ہوگا۔

مادرء سگار بلوچ قومی تحریک میں ایک فعال اور متحرک کردار ہے، اسی وجہ سے شعور و علم اور اجتماعی احساس کی بلندی اس انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔