پاکستانی قوتیں بلوچ قوم کو ریڈ انڈین اور آسٹریلیا کی قدیم باشندوں کی طرح بیدخل کرنے کی خواہش مند ہیں: ماما قدیر بلوچ
کوئٹہ پریس کلب خے سامنے جبری طور پر لاپتہ بلوچ افراد کی بازیابی کے لئےوائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3138 دن مکمل ہوگئے۔ جبکہ خاران سے سیاسی و سماجی کارکن اللہ بخش بلوچ، خان محمد بلوچ نے اپنے ساتھیوں سمیت لاپتہ افراد اور شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے کیمپ کا دورہ کیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم کی بیرونی و استعماری قوتوں کی محکومی و بالادستی سے قومی تحریک کی جدوجہد کی تاریخ دو سو سالوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ اتنی طویل جدوجہد کی مثال آئرلینڈ سمیت چند محکوم اقوام، خطوں میں نظر آتی ہے، یہ کہا جاسکتا ہے کہ جدوجہد کو قوم کے دل دماغ سے مٹانے میں ناکام رہی ہے۔ بلوچ سرزمین پر قابض قوتیں جبر و استبداد کی تاریخ کو پہلے سے کہیں زیادہ درندگی کے ساتھ دہرا رہی ہے۔ بلوچ فرزندوں کی قتل و غارتگری اور قید و تشدد کی سامراجی روایات اگر چہ نئی نہیں ہیں تاہم اس بار یہ گھناؤنی روایات درندگی حیوانیت کے تمام حدیں پار کرچکی ہیں۔بلوچوں کو کچلنے کی پاکستانی فورسز اور ان کی خفیہ اداروں کی مہم بلوچ نسل کش کی مہم بن چکی ہے، اس نسل کشی مہم میں درندگی اور سفاکیت کی جو مثالیں قائم کی جاری ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی قوتیں نہ صرف بلوچستان کی سرزمین اور وسائل پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہیں بلکہ بلوچ قوم کو بھی ریڈ انڈینز یا قدیم آسٹریلوی باشندوں کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دینے یا اُنہیں اپنی سرزمین سے بیدخل کرنے کی کوشش کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس کے علاوہ درندہ صفت سفاکیت کا چنگیزی عمل پاکستانی بالادست طبقے کا بلوچ قوم کے خلاف گہری نفرت اور عداوت کو بھی آشکار کرتا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں ایک قتل عام ہے۔ بلوچ وطن میں چمن بلوچ سے روز شگفتہ پھول توڑے، مسل دیئے جار ہے ہیں ۔ پاکستانی دوزخ کی بھٹی بلوچ کی لہو سے گرم ہے اور اس دھرتی ماتا کے فرزند دھکتی انگاروں پر لٹائے جارہے ہیں مگر آہ نہیں کرتے۔ ایسے دردناک قصے ہیں کہ دیومالائی اور اساطیری معلوم ہوتا ہیں کیوں کہ ان میں بے باکی ہے۔ سچائی ہے اور سچائی پر مرمٹنے کی پُر اثر درس بھی ہے۔