بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ تنظیم کے ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن فیض اللہ کی سربراہی میں 6029 ویں روز جاری رہا۔
مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا، اور اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے خضدار سے ایک بلوچ خاتون کی مبینہ جبری گمشدگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنظیم کو شکایت موصول ہوئی ہے کہ فرزانہ زہری دختر محمد بخش کو رواں ماہ خضدار میں اُس وقت فورسز نے حراست میں لیا جب وہ اسپتال سے واپس اپنے گھر جا رہی تھیں، جس کے بعد انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ واقعے کے بعد تاحال نہ تو فرزانہ زہری کی گرفتاری کی کوئی وجہ بتائی گئی ہے اور نہ ہی ان کے اہلِ خانہ کو ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کی جا رہی ہیں، جو ملکی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
نصراللہ بلوچ نے کہا کہ فرزانہ کے جبری گمشدگی سے پہلے تین بلوچ خواتین ماہ جبین، نسرینہ اور رحیمہ کو بھی سیکورٹی فورسز نے ماورائے قانون گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا، اب تک انہیں کسی عدالت میں پیش کیاگیا ہے اور نہ ہی ان کے لواحقین کو ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات فراہم کی جارہی ہے
انہوں نے ان ماورائے آئین اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فرزانہ زہری، ماہ جبین، نسرینہ اور رحیمہ کی جبری گمشدگی کا فوری نوٹس لیا جائے۔ اگر بلوچ خواتین پر کوئی الزام ہے تو انہیں آئین و قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے، اور اگر وہ بے قصور ہیں تو ان کی فوری رہائی کو یقینی بنایا جائے۔
نصراللہ بلوچ نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور متعلقہ اداروں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور بلوچ خواتین کی بحفاظت بازیابی کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔

















































