بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں حادثات، تین دن میں 15 کانکن ہلاک

77
File Photo

 ’’میرے دوست جس ٹرالی میں روزگار کے تلاش کے لیے گئے تھے۔ اسی ٹرالی میں ان کی لاشیں لائی گئیں۔ ہم نے ایک ایک کرکے کئی دوستوں کی لاشیں کوئلے کی کان سے نکالی ہیں۔‘‘

یہ الفاظ امیر زادہ کے ہیں جو کوئٹہ کے قریب سنجدی میں کوئلے کی کان میں حادثے کے بعد ریسکیو آپریشن کے دوران انتظامیہ کے ساتھ شریک تھے۔

امیر زادہ کا کہنا تھا کہ 60 گھنٹے طویل انتظار کیا لیکن اس کے بعد بھی صرف دوستوں کی لاشیں ہی مل سکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ “جب تک میرے دوست کان کے اندر دبے رہے تب تک ہر لمحہ میرے لیے درد، غم اور خوف کا تھا۔ میری دعا تھی کہ کسی طرح ان کی زندگی بچ جائے۔ مگر تمام امیدیں دم توڑ گئیں۔‘‘

امیر زادہ نے اس واقعے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ “یہاں بڑی مقدار میں کوئلے کے ذخائر ہیں۔ حکومت، کوئلے کی کانوں کے مالکان اور تمام اداروں کو کوئلہ ہی چاہیے۔ لیکن مزدوروں کی زندگی کی کسی کو بالکل پرواہ نہیں ہے۔‘‘

ان کے بقول مزدور ہزاروں فٹ نیچے گئے اور وہاں سے اپنے ساتھیوں کی لاشیں نکال کر لائے۔

کوئلے کی کان میں حادثہ کب اور کیسے پیش آیا؟

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے لگ بھگ 40 کلو میٹر دور سنجدی کا پہاڑی سلسلہ ہے جہاں پر کوئلے کی کانیں ہیں۔ ان کانوں میں ایک یونائیٹڈ مائنز کمپنی کے زیرِ انتظام ہے جس میں واقعہ پیش آیا ہے۔

بلوچستان کے مائننگ ڈپارٹمنٹ کے مطابق کان میں حادثہ جمعرات کی شام اس وقت پیش آیا جب کان کن کوئلے کی تلاش میں کان میں اترے تو ایک زور دار دھماکہ ہوا۔

موقع پر موجود ایک مزدور نسیم خان نے وائس آف امریکہ کی ڈیوہ سروس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات کو شام چھ بجے یونائیٹڈ مائز کی ایک کان میں دھماکہ ہوا تھا۔ ان کے بقول ہم آس پاس کے تمام مزدور وہاں پہنچے تو دیکھا کہ کان دھنس گئی ہے۔ وہاں پر انجن کے لیے بنایا گیا کمرہ بھی شدید متاثر ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ موقعے پر موجود تمام مزدوروں نے کان کے سامنے سے مٹی اور پتھر ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر کان کے اندر جانے کا راستہ کھولنے میں ناکام رہے۔ بعد میں پرونشل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی ریسکیو ٹیمیں بھاری مشینری کے ساتھ پہنچی اور ریسکیو آپریشن کا آغاز ہوا۔

کان میں حادثے کی ابتدائی تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ حادثہ کان میں میتھین گیس بھرنے کے سبب ہونے والے دھماکے کے باعث پیش آیا۔ تاہم اس سلسلے میں مزید تحقیقات کا سلسلہ جاری ہیں۔

ریسکیو کے عمل میں مشکلات کا سامنا رہا

پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے حکام کے مطابق متعدد ٹیموں نے مسلسل دو راتوں تک ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا۔ اس آپریشن کے دوران 11 مزدوروں کی لاشیں نکالی گئی ہیں۔

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہزاروں فٹ نیچے کان میں دبے مزدوروں کو نکالنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔

پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر ریلیف عطاء اللہ مینگل کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ پر بھاری مشینری اور ایمبولینسوں کے علاوہ دیگر آلات پہلے ہی دن پہنچا دیے گئے تھے۔ پہلے مرحلے میں داخلے کی جگہ سے کان کے اندرونی مقام تک ملبہ کو مشنیری سے ہٹایا گیا جو سب سے مشکل عمل تھا۔

حادثے کے مقام پر موجود ایک کان کن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چار لاشوں کو دو ہزار جب کہ باقی لاشوں کو چار ہزار فٹ نیچے سے نکالا گیا۔

واقعے میں ہلاک ہونے والے مزدورں میں سے نو کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ جب کہ ایک کا تعلق سوات اور ایک کا تعلق بلوچستان سے ہے۔

ایک مزدور یامین خان کا کہنا تھا کہ کان کے اندر ریسکیو کا تمام کام مزدوروں نے خود ہی کیے ہیں۔ ان کے بقول امدادی ٹیمیں کان کے زیادہ اندر نہیں جاسکی تھیں اس لیے مزدوروں نے خود ہی اپنے ساتھیوں کو نکالنے کی کوشش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ “ہم دن رات ان کانوں میں کام کرتے ہیں۔ ہمیں اندر کے ماحول اور ہر جگہ کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔”

بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں حادثات میں اضافہ کیوں؟

بلوچستان کے علاقوں دکی، ہرنائی، سنجدی اور دیگر علاقوں میں میں حالیہ عرصے کے دوران کوئلہ کانوں میں حادثات میں اضافہ ہوا ہے۔

کوئلہ کان مزدور یونینز کے مطابق کانوں میں حفاظتی انتظامات اور سہولیات کی کمی، چیک اینڈ بیلنس کے نہ ہونے اور مزدور کی عدم تربیت حادثات کا باعث ہے۔

یونائیٹڈ ورکز فیڈریشن بلوچستان کے جنرل سیکریٹری پیر محمد کاکڑ کے مطابق بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں ہونے والے حادثات میں سالانہ دو سے زائد افراد ہلاک جب کہ تین سو شدید زخمی ہوتے ہیں جو عمر بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔ صوبے میں کوئلہ کانوں میں 2024 کے دوران ہونے والے حادثات کے باعث 170 مزدور ہلاک ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں دکی میں دہشت گردی کے ایک واقعے میں 20 سے زائد مزدور بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔

صوبے میں صرف کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی کل تعداد دو لاکھ 50 ہزار سے زیادہ ہے۔ رپورٹس کے مطابق ان میں سے سب حکومت کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے گزشتہ برسوں میں بلوچستان میں کوئلہ کانوں کہ حالت زار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ جس کے مطابق بلوچستان میں کوئلے کی کانوں کے مزدور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ صوبے میں چھ ہزار سے زائد کانوں میں چیک اینڈ بیلنس کے لیے صرف 27 مائنز انسپکٹرز ہیں۔مزدور یونینز ٹھیکے داری نظام کے خلاف ہے جب کہ سوشل سیکیورٹی کی عدم فراہمی پر ناخوش ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار مختلف

بلوچستان کے محکمہ مائنز کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی کل تعداد 35 ہزار ہے۔

لیکن مزدوروں کے مالی حقوق کے تحفظ کا ادارہ ایمپلائز اولڈ ایج بینفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) کہتا ہے کہ گزشتہ 75 برس کے دوران ان کے پاس صرف آٹھ ہزار کوئلہ کان مزدور رجسٹرڈ ہوئے ہیں جن کا تعلق بلوچستان کے کوئلہ کانوں سے ہے۔

یونائیٹڈ ورکز فیڈریشن بلوچستان کے جنرل سیکریٹری پیر محمد کاکڑ کے بقول گزشتہ سال بھی اسی مائن میں 11 مزدور حادثے میں ہلاک ہوئے تھے جس پر تحقیقات کا حکم تو دیا گیا مگر بعد میں اس تحقیقات کے نتائج کو عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔

انہوں نے کہاکہ کانوں میں حادثات اس وجہ سے بڑھ گئے ہیں کیوں کہ کانوں کے مالکان کراچی، اسلام آباد یا بیرون ملک بیٹھے ہیں اور کوئلہ کانوں کی ذمہ داری ٹھیکے داروں کے سپرد کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہاں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ان کے بقول مائنز ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بھی چیک اینڈ بیلنس کا فقدان ہے جب کہ مزدوروں کو بھی تربیت نہیں دی جاتی ہے جو بھی آتا ہے بس کوئلہ کان میں گھس کر کام شروع کر دیتا ہے۔

کان کی مالک کمپنی کے خلاف مقدمہ درج

محکمہ مائنز نے کان کے مالک کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔

اتوار چیف انسپکٹر مائنز نے ضلعی انتظامیہ کو مذکورہ کول مائنز کمپنی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے ایک مراسلہ ارسال کیا ہے۔

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ مائنز کمپنی نے حفاظتی اقدامات نہیں کیے جس کے باعث قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔

سرکاری سطح پر بتایا گیا ہے کہ مذکورہ کان مالک کے خلاف تھانہ ہنہ اوڑک میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں صوبائی وزیر معدنیات میر شعیب نے ایک بیان میں کہا کہ مستقبل میں بھی اگر کسی کمپنی کی جانب سے کوئلہ کانوں میں حفاظتی اقدامات کا فقدان پایا گیا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔

دکی اور ہرنائی میں بھی کوئلہ کان میں حادثات

بلوچستان کے ضلع کوئٹہ، دکی اور ہرنائی میں تین دنوں کے دوران کوئلہ کانوں میں رونما ہونے والے حادثات میں مجموعی طور پر 15 مزدور ہلاک ہوئے ہیں۔

ورکز فیڈریشن کے رینما پیر محمد کاکڑ نے بتایا کہ اتوار کو ضلع ہرنائی کے علاقے کھوسٹ میں ایک اور حادثے میں چھ مزدور کوئلہ کان میں پھنس گئے تھے جن میں سے تین کی لاشیں نکال لی گئی ہے۔

ان کے بقول باقی تین مزدوروں کا نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

اس سے قبل ضلع دکی میں بھی ایک کان حادثے میں ایک مزدور کے ہلاک ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

سنجدی کوئلہ کان میں ہلاک ہونے والے مزدورں کی لاشیں ان کے آبائی علاقوں کو منتقل کیا جا چکا ہے۔