نیشنل پارٹی کا دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معاہدے ۔ (حصہ چہارم) ۔ رامین بلوچ

93

نیشنل پارٹی کا دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معاہدے ۔ (حصہ چہارم)
تحریر: رامین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس وقت ہمارے آس پاس چین کی ڈرامائی ترقی کا اس قدر واویلا ہے، جیسے کہ زمین کی ٹیکنوٹک پلیٹس کی حرکت سے زلزلہ یاآتش فشان جیسے قدرتی آفات رونما ہونے سے جو ہنگامہ برپاء ہوتا ہے۔ بلکل اسی مانند پنجابی امپرلسٹ، کچھ پاکستانی دانشورزاورچینی گماشتہ اینکرز کے، ساتھ ساتھ پنجابی ساختہ بلوچ جماعتیں، چین کی ڈرامائی ترقی کا خیر مقدم کرتے ہوئے، اسے جس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ جیسے چین کی یہ غیر معمولی ترقی ان کی سیاسی، سماجی، تکنیکی یا انقلابی ترقی ہے۔ ہاں، اس میں کوئی شک نہیں کہ دلالی اور کاسہ لیسی کے عوض کمیشنز، تنخواہ، یا ریوینیو کے مد میں دستر خوان کے بچے کھچے ہڈیوں کا ملنا الگ سی بات ہے۔ لیکن سامراج نہ کبھی کسی کو ترقی دی ہے، اور نہ ہی سامراج کی یہ فطرت میں شامل ہے کہ وہ کسی دوسرے مقبوضہ قوم کی ترقی کے لیے کوئی اقدامات کرے۔

نوآبادیاتی اور سامراجی قوتوں نے عموماً ترقی کے نام پر ہمیشہ سے اپنے سیاسی اقتصادی اور فوجی مفادات کو تحفظ اور بڑھاوا دیا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی سامراج نے ہندوستان اور بلوچستان میں اپنی قبضہ کے دوران ترقی کی جو دعوی کیے، ریلوے لائن، سڑکیں اور دیگر بنیادی ڈھانچے بنانے کے مقاصد میں ان کے استحصالی پالیسیاں شامل تھیں۔ برطانیہ کے لیے ہندوستان سونے کی چڑیا تھی۔ برطانوی راج کے دوران وہ ہندوستان کے سونے، چاندی، ریشم، چمڑے، کپاس اور حتی کہ تمام ذرائع پیداوار، زراعت، صنعت اور تجارت کو کنٹرول میں رکھ کر اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ وہاں کے خام مال کو سستے داموں میں خرید کر عالمی منڈیوں میں مہنگے داموں میں فروخت کرکے ہندوستانیوں کا سفاکانہ استحصال کیا گیا۔

برطانیہ نے ہندوستان میں ”مغلیہ حکومت“ میں سب سے پہلے ایک سفیر ٹامس کو بھیجا۔ جو ایک خاص مشن پر ہندوستان آئے تھے۔ ان کا بنیادی مقصد تھا کہ انگلستان کو ہندوستان میں آزادانہ تجارت کا موقع دیا جائے۔ اس وقت جہانگیر ہندوستان کا سربراہ تھا، انہوں نے اس قسم کے تجارتی معاہدے کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ انگلستان جیسے چھوٹے جزیرے کو ہندوستان کے مقابلے میں اپنا مد مقابل نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن ٹامس نے بار بار کوشش کرتے ہوئے ہندوستان کے ولی عہد شاہجہان کے دور میں 1618 میں ایک معاہدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ جس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کو آزادانہ تجارت کا باقاعدہ پروانہ ملا۔ جس نے چند ہی سالوں اور مجموعی طور پر دو سو سالوں میں ہندوستان کے وسائل کو اتنا لوٹا کہ وہاں کے شاہ ان کے وظیفہ خور بن گئے۔

اس سلسلے میں ایک ماہر معاشیات مہناز مرچنٹ کا کہنا ہے کہ “انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والی مجموعی مالی دھچکے کی کل رقم 2015 کے زر مبادلے کے حساب سے 30 کھرب ڈالر بنتی ہے”۔ سترھویں صدی میں ہندوستان تن تنہا دنیا کی 22.6 فیصد دولت پیدا کرنے والا ملک تھا۔ جو تمام یورپ کے مجموعی دولت کے برابر تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی راج کے ہندوستان پر اقتدار کے دوسرے جو بھیانک اثرات مرتب ہوئے، وہ بہت خوفناک تھے۔ برطانوی راج کے دوران صرف قحط سے تین کروڑ ہندوستانی اور بنگالی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ جو تاریخ کے بدترین سفاکیوں میں سب سے اول رہا۔ ماہرین معاشیات نے ہندوستان میں ہونے والے اس قحط کو قدرتی آفات کے بجائے برطانوی تجارتی استحصال (commercial exploitation) کی علامت قرار دی۔

ہندوستان میں آنے والے قحط سے ہندوستان میں تین کروڑ گلے، سڑے انسانی ڈھانچوں کے حوالہ سے مشہور فلاسفر ویل ڈیورانٹ لکھتے ہیں کہ “ہندوستان میں آنے والی خوفناک قحطوں کی بنیادی وجہ برطانوی قبضہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے بے رحمانہ استحصال، اجناس کی غیر متوازن درآمد، اور ظالمانہ طریقوں سے مہنگے ٹیکسوں کی وصولی تھی کہ بھوک سے ہلاک ہونے والے کسان انہیں ادا نہیں کر سکتے تھے۔۔۔ برطانوی راج مرتے ہوئے لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے پر تلا رہتا تھا”۔

ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوآبادیاتی قوتیں وہ جو کچھ بھی “ترقی” کے نام پر کرتی ہیں، وہ صرف اپنے غیر قانونی قبضے کو مستحکم کرنے، اور اپنے نفع اور فائدے کا سوچتی ہیں۔ مقبوضہ قوم اپنے ذہن سے یہ غلط فہمی نکال دے کہ سامراجی درندگی کے تحت امن، خوشحالی اور ترقی کا تصور کیا جا سکتا ہو۔ بلکہ ان کی موجودگی میں مقبوضہ سماج میں نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے، بلکہ سیاسی، معاشی، ثقافتی اور سماجی ناہمواری بڑھ جاتی ہیں۔ سامراجی طاقتیں درندہ صفت ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے نئے شکار تلاش کرتی ہیں۔ اور یہ شکار ان کی مکروہ مقاصد اور بھوک کو پورا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ جو مقبوضہ ملک کے وسائل، زمین اور انسانی قوت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان اور بالخصوص گوادر بندرگاہ پر چین کے ممکنہ بحری اڈوں یا گوادر ایئرپورٹ کو آپریٹ کرنے، یا چین و پاکستانی اقتصادی راہداری سے، یا تیل و گیس کی تلاش اور کسی سلک روڈ یا ایکسپریس ہائی وے سے بلوچستان یا بلوچ کو کیا فائدہ ہوگا؟ اور بالخصوص اس صورت حال میں جب بلوچ وطن خود مقبوضہ ہو، جہاں مالک سے معاہدات نہیں کیے جا رہے ہیں کہ اس سے مشروط طور پر ہمیں کوئی فائدہ ملے، بلکہ قابض یا کرایہ دار سے سودا کیا جا رہا ہے۔ اس وقت بھی ممکنہ طور پر گوادر بندرگاہ سے تجارتی مقاصد کی مد میں 90 فیصد چین اپنے پاس رکھے گا، اور 10 فیصد پنجابی ریاست کو چوکیداری کے مد میں دے گا۔ بلوچ کے لیے اب بھی اس میں کوئی اقتصادی فوائد شامل نہیں ہیں، جو کسی کٹھ پتلی حکومت کو ملے۔ ہاں، اس دس فیصد سے مقامی دلالی کے لیے اجرت کے طور پر نیشنل پارٹی یا اس جیسے کٹھ پتلی وزراء کو ذاتی طور پر شیئر ملے گا۔ لیکن مجموعی طور پر بلوچ کے لیے چینی سامراجی عزائم زہر قاتل اور تریاق ثابت ہوں گے۔

اس سے پہلے 2002 سے سیندھک سے نکلنے والے سونا، تانبا، سلفر اور لیڈ جیسے قیمتی دھاتوں اور اس عظیم معدنی ذخائر کی لوٹ سے بلوچ قوم کو کیا فائدہ ملا؟ کہ اب سی پیک سے ملے گا؟ چینی کمپنی چائنا نیشنل گولڈ گروپ کارپوریشن (CNGGC) نے بلوچ معدنی ذخائر کو لوٹنے کے علاوہ ہمیں کیا دیا؟ اس سے صرف چین کے صنعتی ترقی میں گہرے اثرات مرتب ہوئے، اور آج چین جس ترقی کے نہج پر ہے، اس میں پچاس فیصد بلوچستان کے معدنی ذخائر اور بالخصوص سیندھک کا کردار ہے۔ سیندھک کے آس پاس انسانی آبادی کو سونے کے اس پہاڑ سے کیا ملا؟ وہی پھٹے جوتے اور کپڑے، غربت، تنگ دستی اور سب سے بڑھ کر غلامی! جو غربت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

اب نیشنل پارٹی جس سی پیک پروجیکٹ میں چین کے ساتھ تعاون کے لیے معاہدہ جاتی سازش میں شراکت دار بننے جا رہی ہے، تو یہ بلوچ قوم کی اجتماعی خودکشی پر دستخط کی مترادف ہوگی۔ اگر نیشنل پارٹی کو بلوچ دشمن پارٹی نہ کہا جائے، تو کیا اسے پھولوں کا ہار پہنائے، جو بلوچ قبضہ گیریت اور نسل کشی کو دوام دینے کے لیے سامراجی سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے؟ جو چین کے معاشی انجن کو ہمارے زمین، جغرافیہ اور بلوچ خطے کی تذویراتی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر ایندھن دینا چاہتے ہیں۔ اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نیشنل پارٹی بلوچ قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر چین و پاکستان جنگی شراکت داری اور سازشوں کا ایک اکائی ہے۔

معذرت کے ساتھ نیشنل پارٹی پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں رہتے ہوئے، جس طرح چینی پروجیکٹس کی حفاظت کے لیے خود کو بطور سہولت کار اس انداز میں پیش کر رہا ہے، جیسے ایک شخص اپنے ملکیت یا لوٹ مار کے تحفظ کے لیے ایک وحشی کتے کو زنجیر ڈال کر رکھ دیتا ہے۔ یہ مثال نیشنل پارٹی کے کردار پر صادق آتی ہے۔ جسے زنجیروں سے باندھ کر ان کے سامنے بچھے کھچے ہڈیوں کو پھینک دیا جاتا ہے تاکہ وہ صرف بھونکتے رہیں۔

اگر چین کی ترقی کے موجودہ اسباب یا عوامل پر گہرے سنجیدہ اور ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے، یا چین کے “ڈرامائی معاشی معجزات” کا جائزہ لیں، تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ اس کے موجودہ معاشی ابھار کے پس منظر میں کون سے نظریات کار فرما ہیں؟ کیا چین کی موجودہ اقتصادی ترقی نیشنلزم کی پالیسیوں سے جڑاہوئی ہے؟ یا یہ سوشلزم کے نظریات کا رہین منت ہے؟ یا یہ سرمایہ داری نظام کی نقالی پر مبنی ہے؟ یا اس کے موجودہ اسٹریٹیجک پوزیشن میں لوٹ مار، قبضہ گیریت اور سامراجی عزائم شامل ہیں؟

اگر ہم چین کے موجودہ معاشی پوزیشن پر نظر ڈالیں، تو بلا مبالغہ ہمارے سامنے جو حقیقت آشکار ہوتی ہے، کہ چین کی موجودہ اقتصادی ترقی کے پیچھے اس کے قدرتی، فطری آزادی یا کوئی ارتقائی عوامل یا محنت کار فرما نہیں، بلکہ اس کا یہ اقتصادی ابھار ہر زاویہ سے مکمل سامراجیت اور لوٹ مار پر مبنی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سامراجیت کیا ہے؟ اور چین بیسویں صدی کا سامراج کیسے بنا؟ کیا ماؤزے تنگ کی قیادت میں اور چینی نیشنلزم کی بنیاد پر آزاد ہونے والے چین کو سامراج کے القاب دینا درست ہوگا؟
اگر چین کے سامراجی ہتھکنڈوں پر نظر ثانی کی جائے، تو اس میں کوئی مغالطہ نہیں، کہ سامراجیت کا روپ اختیار کرنے والا یہ بھوکا اژدہا نہ صرف بلوچستان پر اپنا پنجہ گاڑھنے اور بحیرہ بلوچ کو اپنے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال میں لانا چاہتا ہے، بلکہ کئی دیگر خطے ہیں، جن پر نہ صرف اپنی ملکیت کا دعویٰ کرکے انہیں اپنے اکائی سمجھتا ہے، بلکہ ان کا غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی استحصال کر رہا ہے۔ ان کے قدرتی وسائل جیسے قیمتی معدنیات، آبی ذخائر، تیل و گیس اور دیگر قدرتی ذخائر کو بے دریغ لوٹ رہا ہے۔ جس میں 50 فیصد بلوچستان کے اثاثے اور 50 فیصد دیگر خطوں کے وسائل اور اثاثے شامل ہیں، جو چین کے مالیاتی سرمائے کے حجم میں اضافے کا سبب ہیں۔ چین کی اس معاشی مہم جوئی میں ان کی فطری محنت، صلاحیت شامل نہیں، بلکہ وہ پاگلوں کی طرح اپنی معیشت کی حیات نو کو دوام دینے کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں نہ صرف سرمایہ کاری کر رہا ہے، بلکہ 90 فیصد ریوینیو کا مالک بن کر لانگ ٹرم اقتصادی ہتھیار کو استعمال میں لا رہا ہے۔

یہ ظاہر سی بات ہے کہ جن کے پاس لوٹ مار کے بے پناہ وسائل ہوں، وہ علم و ہنر، سائنس و ٹیکنالوجی میں سبقت لے سکتے ہیں۔ لیکن سب سے اولیت “سرمایہ” رکھتا ہے اور آج کے اس سرمایہ داری دنیا میں شرح منافع کے ہوس سرمایہ کے ارتکاز کو بڑھاتا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں سائنس و ٹیکنالوجی میں جدت انسانی سماج کو آگے بڑھانے کے بجائے منافع کی شرح کو بڑھانے اور استحصال کو نئی شکل دینے کے لیے کی جاتی ہے۔

چین کی حالیہ معاشی شرح نمو بھی استحصال، ظلم اور سفاکیت پر قائم ہے، جو ایک غیر انسانی نظام کی شکل میں انسانیت کو بربریت میں دھکیل رہی ہے۔ حالانکہ کوئی بھی قومی سماج قومی محنت کے بنیاد پر اپنی توازن قائم رکھتا ہے۔ ایک قوم یا سماج اپنی محنت، صلاحیت، تعاون اور قومی یکجہتی سے ترقی کرتا ہے۔ جو فطرت کو زیر استعمال لا کر خود کو آزاد اور زندہ رکھنے کے لیے پیداوار کرتا ہے۔ اور ذرائع پیداوار کو ترقی دیتا ہے۔ جس سے سماجی ہیئت کی تشکیل ہوتی ہے۔ قومی محنت سے سماج میں خود اعتمادی اور قومی فخر بڑھتا ہے۔ ان میں ایک احساس کامیابی اور مشترکہ مقصد کی طرف رجحان پیدا ہوتا ہے۔

ترقی کا مفہوم محض طاقت کے استعمال، توسیع پسندی، اجارہ داری یا دوسرے اقوام کے قدرتی وسائل کو لوٹنے تک محدود نہیں ہے۔ جب تک سامراجی طاقتیں بلوچوں کو ان کے قدرتی حقوق سے محروم رکھیں گے، اور چین کی جڑیں بلوچستان میں گیراں کریں گی، وہ اس مظلوم قوم کے ایک اور شکنجے کو اٹکانے کے لیے بلوچستان میں چین و پاکستان کے سیاسی مفادات کو اپنا رہا ہے۔ تو بلوچ کی آزادی کے لیے ان قوموں کا محنتی، عادلانہ اور ترقی پسند نظام ہی کامیاب ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔