گوادر راجی مچی اور پاکستان آرمی کے جھوٹ ۔ ذوالفقار علی زلفی

324

گوادر راجی مچی اور پاکستان آرمی کے جھوٹ

تحریر: ذوالفقار علی زلفی
دی بلوچستان پوسٹ

پاکستانی فوج کے جھوٹ پر پاکستانی میڈیا کی پھرتیاں بھی صحافت ہے؟ ـ 27 جولائی 2024 کی شام سوشل میڈیا پر ایک خبر گردش کرتی ہے کہ: گوادر میں پاکستانی فوج کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا ہے جس میں دو فوجیوں کے ہلاک اور چار اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ ـ

گوادر میں انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطوں کے منقطع ہونے کی وجہ سے تفصیلات کا حصول مشکل ہوتا ہےُ

حادثے کی خبر کے دو دن بعد 29 جولائی 2024 میں آئی ایس پی آر پریس ریلیز جاری کرتی ہے ـ جس کے مطابق گوادر میں بلوچ راجی مچی کے شرکا کے حملے میں ایک فوجی اہلکار ہلاک اور 16 زخمی ہوگئے ہیں۔

27 جولائی کی صبح سے تاحال گوادر میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے ـ گوادر اور قرب و جوار کے علاقوں میں ٹیلی فون اور موبائل نیٹ ورک بند ہیں ـ شہر کے خارجی و داخلی راستوں سمیت کوسٹل ہائی وے پر فوجی کی بھاری نفری تعینات اور ہر قسم کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی عائد ہے ـ گوادر سے کراچی اور تربت/کوئٹہ جانے والی سڑکوں کی بندش کے باعث شہر کا بلوچستان سے زمینی رابطہ منقطع ہے ـ ایران سے آنے والے شیعہ زائرین بھی گزشتہ تین دنوں سے بارڈر پر پھنسے ہوئے ہیں ـ

28 جولائی کی صبح گوادر آنے جانے پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ـ گوادر کے قریبی قصبوں پشوکان، گنز، گبد، کلاتو، پلیری اور پسنی کے شہریوں کو بھی گوادر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی گوادر سے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ ـ

27 اور 28 جولائی کو گوادر میں جگہ جگہ فوجی اہلکار گشت کرتے رہے جو لوگوں کو دیکھتے ہی بلا اشتعال فائرنگ کر رہے تھے ـ باہر سے آنے والے افراد بالخصوص بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کے لئے 27 اور 28 جولائی کی درمیانی شب مختلف گھروں میں چھاپے مارے گئے ـ یہاں تک نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما میر اشرف حسین کے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا اور گھر کی چیزوں کو نقصان پہنچایا گیا ـ شہر کے تقریباً ہر گلی کوچے میں پاکستانی اہلکار گشت کرتے رہے۔ ـ

28 جولائی کو گوادر شہر کے مختلف مقامات پر راجی مچی میں شرکت کے لئے آنے والوں پر سیدھی فائرنگ کی گئی جس سے متعدد افراد جاں بحق و زخمی ہوئے ـ مواصلاتی رابطوں میں فقدان اور فوجی راج کے باعث اموات اور زخمیوں کی درست تعداد تاحال معلوم نہیں ہوسکی ہے ـ اس دوران سیکڑوں افراد گرفتار بھی کئے گئے ـ وہ بھی تاحال لاپتہ ہیں۔ ـ

28 جولائی کو پدی زِر (میرین ڈرائیو) جہاں راجی مچی کا انعقاد ہونا تھا اس کا محاصرہ کیا گیا تاں کہ کسی کو وہاں جمع نہ ہونے دیا جائے ـ تمام جبر اور رکاوٹوں کے باوجود خواتین کی قیادت میں عوام نے فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کرکے پدی زِر پر خود کو منظم کرلیا ـ شام کے پانچ بجے تک مچی میں لوگوں کی تعداد کم تھی مگر رفتہ رفتہ یہ تعداد بڑھتی رہی اور اندازے کے مطابق 50 سے 60 ہزار افراد تمام تر رکاوٹوں کے باوجود وہاں جمع ہونے میں کامیاب رہے ـ

راجی مُچّی میں 70 سے 80 فیصد افراد گوادر کے ہی شہری تھے ـ بلوچستان بھر اور گوادر کے قرب و جوار کے لوگوں کو چوں کہ بلااشتعال فائرنگ اور رکاوٹوں کے ذریعے روکا گیا تھا اس لئے گوادر سے باہر کے افراد کی شرکت انتہائی محدود رہی ـ خود گوادر کے بھی متعدد شہری سڑکوں کی بندش اور مسلسل فائرنگ کے باعث مچی میں شرکت کرنے سے قاصر رہے۔ ـ

اس دوران فوج نے سڑکوں اور گلیوں میں گشت کرکے غیر گوادری نمبر پلیٹوں والی گاڑیوں کے شیشے توڑے، ٹائروں پر گولیاں چلا کر انہیں ناکارہ بنا دیا ـ ایسا لگ رہا تھا جیسے گوادر اب گوادر نہ رہا اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تباہ حال غزہ بن چکا ہے۔ ـ

کراچی سے آنے والے قافلے کو کنڈ ملیر کے مقام پر روکا گیا ـ بسوں کی ٹائروں کو فائرنگ کے ذریعے ناکارہ بنایا گیا ـ آخری اطلاع آنے تک کراچی کا قافلہ کنڈ ملیر میں ہی پھنسا ہوا تھا ـ پنجگور، خاران ، تربت اور چاغی کے مشترکہ قافلے کو گوادر سے چند کلومیٹر دور تلار کے مقام پر فائرنگ کے ذریعے روکا گیا ـ فائرنگ کے باعث کم از کم دو افراد کی شہادت کی تصدیق ہوچکی ہے، زخمیوں کی تعداد کا تاحال علم نہ ہوسکا ـ تلار میں پھنسے کچھ افراد دوبارہ پنجگور چلے گئے جب کہ باقی ماندہ افراد گاڑیوں کے ٹائر پھٹنے کے باعث وہاں پھنسے ہوئے ہیں ـ کوئٹہ، مستونگ اور ڈی جی خان کے قافلے مستونگ کے قریب فائرنگ کا نشانہ بنے ـ فائرنگ کے باعث 16 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے ـ اس قافلے کے شرکا نے تاحال کوئٹہ کراچی شاہراہ پر دھرنا دے رکھا ہے ـ

یہ سب کرنے کے بعد بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیراعلی سرفراز بگٹی ٹی وی پر بیٹھ کر معصومیت سے کہتے ہیں “بلوچستان کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے جب کہ ماہ رنگ بلوچ 40 ہزار افراد بھی جمع نہ کرسکی” ـ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔