رؤف بلوچ کا نہیں، بلوچ قومی روایتوں کا جنازہ – جورکان بلوچ

224

رؤف بلوچ کا نہیں، بلوچ قومی روایتوں کا جنازہ

تحریر: جورکان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ معاشرہ تاریخی حوالے سے ایک سیکولر معاشرہ کہلاتا ہے جہاں ہر مذہب کی عزت اور ہر مذہب کے ماننے والے لوگوں کی قدر کی جاتی ہے جیسے کہ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے کہیں دہائیوں سے یہاں آباد ہیں اور نانی مندر جیسے کہیں مندریں اور دوسرے مذہبی گرجاگر بلوچستان میں آباد اور سلامت ہیں مگر پچھلے کہیں دہائیوں سے بلوچ زمین پہ قابض پاکستان جی جان لگا کے یہ کوشش کررہاہے کہ بلوچ معاشرے کو مذہبی رجعت پسندی کے آڑھ میں اس طرح لپٹائے کہ اس سیکولرزم کی جڑیں نکالی جاسکیں اور مذہب کا نام استعمال کرکے اپنے مفادوں کو پورا کرسکے۔

پاکستان جو کہ اپنے آپ کو ایک اسلامی ریاست کہلوانے کی کوشش کررہا ہے اور اپنے عوام کو مذہب کے نام پہ تو گمراہ کرچکی ہے مگر دوسرے اقوام کو گمراہ کرنے کی جدوجہد کررہا ہے۔ پاکستان برطانوی سامراج کا بنایا ہوا ایک نوآبادیاتی ریاست ہے جو برطانوی سامراج کے قبضے کو برقرار رکھنے کیلئے بنایا گیا پھر پاکستان فوجی آمروں کے لئے ایک کاروباری مقام بن گیا جہاں فوجی اپنے کاروبار کو فروغ دیتے ہیں اور اپنے ریٹائر ہونے کے بعد بیرون ملک جاٰئداد لینے کے بعد وہی آباد ہوجاتے ہیں۔ پاکستان نے بننے کے بعد فوراً بلوچ زمین پہ قبضہ کیا اور اسکے لُوٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کو بھی ایک مشینری بنانی کی کوشش کی گئی تاکہ وہ کبھی بھی اپنے آنکھیں کھول کر اس حقیقت کو دیکھ نہ پائے، جس میں وہ کامیاب بھی رہا ہے۔

مذہب جو کہ بقول گوگی کہ انسانوں کو ایک ساتھ کرنے میں ایک کردار ادا کرتی ہے اور انسانوں کو روحانی سکون دینے کا کام سرانجام دیتی ہے وہی اگر مذہب کو نوآبادیاتی طرز طریقہ سے استعمال کیا جائے تو یہی مذہب ایک قوم کو الگ کرنے اور گمراہ کرنے کا کام بھی سرانجام دیتی ہے۔ جیسے کہ پاکستان نے مذہب کا لبادہ اوڑھ کے اپنے عوام کو گمراہ کرکے ایک ایسے نظر نہ آنے والے پنجرے میں بند کیا ہے جس سے اس کی کہیں نسلیں نہیں نکل سکتی۔ پاکستان نے بننے کہ فوراً بعد بلوچ کے خلاف مذہب کو استعمال کرنا شروع کیا جیسے کہ اسی مذہب کو استعمال کرکے آغا عبدلکریم اور نواب نوروز خان کو قرآن کے نام سے ان کو پہاڑوں سے واپس بلایا، وہی جب بلوچ آذادی کے تحریک پھر منظم ہونے لگی تو مذہب کے نام پہ تبلیغی ملاؤں کو بلوچستان کے علاقوں میں تبلیغ کے نام پہ بھیجا گیا جو وہاں ریاستی پالیسی کے تحت کام کرنے لگیں۔ اسی طرح کے کہیں مذہبی تکنیکیں استعمال کی گئی جن سے پاکستان نے اپنے مفاد کو پورا کرنے کا کام سرانجام دیا۔

نوآبادیاتی معاشروں میں مذہب کو ہمیشہ ایک نوآبادتی تکنیک کہ طور پہ استعمال کیا گیا ہے جو نوآبادیاتی تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے استعمال ہوتا ہے کہیں ریاستی ڈیسکورس کو پھیلانے اور استعمال کرنے کیلئے مذہب کا لبادہ اوڑھا جاتا ہے جس کی مثال بلوچستان میں کہیں برسوں سے جاری مدرسہ کلچر کو فروغ دینا ہے جہاں بلوچ نوجوانوں اور بلوچ بچوں کو بلوچ قومی نظریہ اور قومی تحریک سے دور رکھنے کی انتم کوشش کی جاتی ہے۔ نوآبادیاتی قبضہ گیر کی کوشش ہوتی ہے کہ مظلوم قوم کے معاشرے کو کرپٹ کیا جائے، اس کی ثقافت اور زبان کو اپنے مسلط کی گئی روایتوں کے ساتھ مکس کیا جائے، اور سب سے اہم اس کے psyche کو اس طرح سے کرپٹ کیا جائے کہ اس کے اندر سے قومی شعور (national consciousness) کو کرپٹ کیا جائے جو کہ ایک قوم کی زندہ رہنے کی نشانی ہوتی ہے۔ بلوچ معاشرے کی قومی شعور کو کرپٹ کرنے میں پاکستان ایک حد کامیاب ہو بھی چکی ہے جہاں اس کے سیکولرزم کے شعور کو تباہ کرچکی ہے اور اپنے استعمال کردہ اسلام کا پیروکار بنایا ہوا ہے۔

اگر اسلام اور پاکستان کو دیکھیں تو اسلام پاکستان سے اتنی دور ہے جتنی کہ زمین اس کہکشاں کے آخری ستارے سے دور ہے۔ پاکستان نے تو صرف اسلام کا نام استعمال کرکے اپنے مفادوں کو پورا کیا ہے، اپنے قبضہ گیریت کو وسعت دی ہے۔ اس کے بعد اگر اسلام کے نام سے قتل کرنے کی بات کی جائے تو پورا پاکستان واجب القتل ہے جو اسلام اور حضورﷺ کا نام استعمال کررہا ہے۔ ہر وہ انسان واجب القتل ہے جو کہتا پھرتا ہے کہ پاکستان اسلامی ملک ہے، ہر وہ فوجی جنرل واجب القتل ہے جو کہتے پھرتے ہیں کہ آپﷺ نے پاکستان بننے کا خواب دیکھا ہے، ہر وہ آدمی اور عورت واجب القتل ہے جو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکھتے کہ پاکستان بنانا اللّہ تعالی کی خواہش تھی، ہر وہ فوجی واجب القتل ہے جس نے بلوچستان میں ہونے والے ان آپریشنوں میں حصہ لیا جن میں قرآن پاک جلائے گئے اور ہر وہ انسان واجب القتل ہے جو کہتا ہے کہ پاکستان اللّہ کی رازوں میں ایک راز ہے۔

پاکستان اور کچھ نہیں بس فوجیوں کیلئے ایک کمانے کہ جگہ ہے، جوئے کا ایک مقام ہے اور اپنے حوّسوں کو پورا کرنے کیلئے ایک رنڈی خانہ ہے جو اسلام کا نام اس بےدردی کے ساتھ استعمال کررہی ہے جس سے اسلام خود پچھتانے کے مقام پہ آیا ہے کہ آیا یہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے اور یہ میں کہاں استعمال ہورہا ہوں اور سب سے دل دہلانے والی بات کہ کوئی اس کے خلاف بولنے والا کیوں نہیں۔
اسلام امن کو ماننے اور فروغ دینے والا ایک ایسا مذہب ہے جس نے انسان کو راہ راست پہ چلنے کی توفیق دی ہے مگر پاکستان اسلام کے نام پہ جو کچھ کررہا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کے پیروکاروں کے منہ پہ تھمانچہ ہے جو اس پہ خاموش ہیں مگر اس قوم کے آنکھوں پہ ایسی دھول چڑھائی گئی ہے کہ یہ قوم ایک مخصوص دائرے سے باہر کچھ دیکھ ہی نہیں سکتی۔ اسلام کے نام پہ کچھ انسان اپنے ذاتی مفادات کو پورا کررہے ہیں مگر اس قوم کا دماغ ہی خالی ہوگیا ہے جو ان کو اپنا لیڈر کہنے سے فخر محسوس کرتی ہے۔

پاکستان نے دوسرے لوگوں کو کیسے گمراہ کیا ہے، ان کے آنکھوں پہ کیسی پٹی باندھی ہے اس سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں ہے مگر ہم اس بات کو نظرانداز کر ہی نہیں سکتے کہ اس دھول کے لپیٹ میں ہم دانستہ طور پر آرہے ہیں اور ہمارے ذہینوں پہ کہیں عرصوں سے یہ کام جاری ہے کہ کس طرح بلوچ قوم کو مذہبی شدت پسندی کی آڑھ میں لائیں۔ رؤف بلوچ کے ساتھ یہ حالیہ واقعہ پاکستان کی ان انتھک محنت کی گواہی دیتی ہے۔ اس واقعے کہ ساتھ نہ صرف رؤف بلوچ کا قتل ہوا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہمارے معاشرے کے سالوں سے قائم روایات کا بھی قتل ہوا ہے، وہ سارے روایات رؤف بلوچ کے ساتھ دم توڑ گئی جن پہ ہم اس سے پہلے فخر کرتے تھے، اس واقعے کہ ساتھ اب ہم فخر سے یہ نہیں کہہ پائینگے کہ ہم ایک سیکولر قوم ہیں، ہاں ہونگے، شاہد ہونگے یا شاید تھے مگر اس بات کو تو فراموش کر ہی نہیں سکیں گے کہ اس واقعے کہ بعد ہم سب خاموش تھے، ہم سب نے رؤف کے جنازے کے ساتھ، اپنے سالوں پرانی روایات کا بھی جنازہ دیکھا مگر ہم خاموش تھے۔

کیا ہم واقعی اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ اس سازش کے پیچھے چھپے روشن وجہ کو نہیں دیکھ پاتے یا ہم اتنے بزدل اور گونگھے ہوچکے ہیں اگر ہم چائیں بھی تو ہمارے منہ سے آواز نہیں نکل سکتی۔ اگر رؤف کو انصاف نہیں دلاسکتے تو کم سے کم اتنا تو کرسکتے ہو کہ رؤف کے جنازے کہ ساتھ پاکستان کے ان سب پیدا کیے ہوئے مذہبی تکنیکوں کا بھی جنازہ اٹھاؤ اور اسے مجبور تو کرسکتے ہو کہ وہ ان تکنیکوں کا جنازہ خود اٹھائے اور جاتے ہوئے یہ کہے کہ ”ہاں بلوچ واقعی ایک سیکولر قوم ہے جو واقعی حقیقتاً اسلام کے راہ پہ گامزن ہے۔ ھیر۔۔۔ اب یہ بلوچ قوم پہ ہے کہ اس واقعے کے خلاف اپنے آپ کو کس طرح منظم کرتی ہے اور اس نئی ریاستی تکنیک اور مذہبی طرز طریقہ کار سے کس طرح نپٹتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔