پاکستان کشت خون کی پالیسی میں مزید شدت لاچکی ہے۔ ماما قدیر بلوچ

72

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5131 ویں روز جاری رہا۔ اس موقع پر سیاسی سماجی کارکنان داد محمد بلوچ، اصغر بلوچ ، نور محمد بلوچ اور دیگر نے آکر اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی اداروں نے بلوچ سرزمین پر اپنی کشت خون کی پالیسی میں مزید شدت لاچکی ہے، شعور نظریاتی اور فکری ہتھیار سے لیس بلوچ فرزندوں نے پاکستان کو سیاسی معاشی اور اقتصادی طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا ہے جس سے بلوچستان میں اس کے قبضہ گیریت کے وجود کی بوسدہ دیوار زمین بوس ہونے کو ہے ۔

انہوں نے کہاکہ جبری طور لاپتہ فرزندوں کی لازوال قربانیوں کے بدولت عالمی برادری بلوچ قومی مسئلے کی جانب متوجہ ہوئی ہے اور اقوام متحدہ بلوچستان سے عالمی سطح پر پاکستان کے تمام جرائم کا پردہ فاش ہو گیا ہے جس سے حواس باختگی میں مبتلا پاکستانی فورسز نے اپنے وحشت بربریت میں مزید شدت لاچکی ہے مگر ریاست پاکستان کی تمام تر ظلم و بربریت اور اس کے گماشتوں کی ریشہ دوانیاں بلوچ پر امن جدوجہد کے سامنے ریت کی دہوار ثابت ہورہے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اس سے پہلے پاکستان نے ہمیشہ بلوچوں پر جنگ مسلط کیا تھا لیکن اس پرامن جدوجہد کو شروع اور پاکستان پر مسلط ایک بلوچ محب وطن طبقے نے کیا اس جدوجہد نے پاکستان کو انگشت بدندان کیا کیونکہ اس وقت پاکستان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان یہ سمجھ رہا تھا کہ انہوں نے بلوچ رہنماوں، سیاسی پارٹیوں کو مراعات و ذاتی عیش و عشرت سے ایسے جال میں پھنسایا کہ یہ چاہے بھی تو اس سے نہیں نکل کر اپنے عوام کے لئے سوچ بھی نہیں سکتے۔ آج بلوچوں میں کافی شعور بیدار ہوا ہے کہ خانہ جنگی بلوچوں کو مزید تقسیم در تقسیم کرکے دائمی غلامی کے اندھیروں میں دھکیل دینے کے مترادف ہوگا۔