بلوچ تحریک آزادی میں بلوچ خواتین کی ذمہ داریاں – مراد بلوچ

750

بلوچ تحریک آزادی میں بلوچ خواتین کی ذمہ داریاں

تحریر: مراد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب بلوچستان پر ریاست پاکستان نے قبضہ کیا تو بلوچوں نے ریاست پاکستان کےخلاف مسلح جنگ شروع کی۔ جنگ نے ایک تحریک کی شکل اختیار کی جنگ کے ذریعے لوگوں کو شعور پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ کیونکہ اس وقت بلوچوں کے اندر تعلیم کی کمی تھی۔ اور لوگوں کو شعور پیدا کرنے کیلئے سرپدی اور تعلیم ضروری تھی۔ اس وقت بلوچستان میں قبائلی نظام مظبوط تھا تعلیم کی کمی تھی جب BSO بنی تو BSO نے سارے بلوچستان میں تبلیغ کی کہ ہم اب سب بلوچ ہیں۔ قباہلیت کو چھوڑ کر بلوچ بن جاہیں۔ BSO کے نوجوانوں کو پڑھنے اور تعلیم حاصل کےلیے ایک اہم رول ادا کیا اور آج بلوچستان کی۔ اور آج بلوچستان کی تحریک آزادی میں ہر اول دستے کا کردارBSO کے نوجوان تعلیم یافتہ نوجوان ادا کررہے ہیں۔ BSO نے تحریک آزادی میں ایک اہم پیش رفت حاصل کی۔ BSO نے تحریک آزادی میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی جگہ دی۔اور انکو آگے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی بھرپور کوشش کی۔BSO کی بدولت آج خواتین بلوچ تحریک آزادی میں ایک اہم رول ادا کررہے ہیں،تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو یہ شعور اجاگر کیا گیا کہ ہم ریاست پاکستان کے غلام ہیں۔ ہمیں غلامی کی زنجیروں سے جھکڑ کر رکھا گیا ہے اور جبری طور پر ہمیں غلام بنایا گیا ہے غلامی کو ختم اور آزادی حاصل کرنے کیلئے مسلح جنگ ضروری ہے۔ مسلح جنگ لڑنے کیلئے مسلح جنگ کی راہ ہموار کرنا ضروری ہے غلامی کی جنگ دو محاذوں پر لڑی جاتی ہے۔

ریاستی فوج اور انکے اداروں پر حملہ کرنا اور دوسرا میڈیا استعمال کرتے ہوئے اپنی آواز کو پوری دنیا کو پہنچانے کے لئے میڈیا کو بھرپور استعمال کرنا۔

بلوچ سرمچاروں نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔کیونکہ میڈیا ریاست کی پابند ہے۔ مگر آج کل جدید دور کی وجہ سے ریاست میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتے مردوں کے مقابلے خواتین میڈیا پر زیادہ اثر انداز ہونگے اور بلوچ خواتین کو زیادہ سے زیادہ میڈیا استعمال کرنی چاہیے تاکہ وہ میڈیا کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک اپنی آواز کو پہنچا سکیں۔ کیونکہ دنیا میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی آواز کو زیادہ سنی جاتی ہے۔

بلوچوں کی تاریخ میں دیکھا جائے تو بہت سی جنگیں لڑچکے ہیں بلوچوں کی ہر جنگ میں خواتین کی بڑی کردار رہی ہیں۔ میر کمبر کی ماں نے میر کمبر کو کو جنگ لڑنے کیلئے کیسے تیار کیا تھا۔ دودا اور بالاچ کورگیج کی ماں نے دودا کو کیا کہا تھا۔

میر چاکررند کی بیٹی بانڑی نے ھندوستان کی جنگ کی کمان خود سنبھالی تھی۔ اور ھندوستان کو فتح کرلیا۔

دادشاہ بلوچ کی بہنوں نے اپنی بھاہیوں کے ساتھ ایرانی فوج کے ساتھ مسلح جنگ لڑی اور ایک عورت کے ناطے ایک ہفتے تک بغیر پانی اور اور بغیر خوراک کے ایک ہفتے تک چلتا رہا۔ مگر آگے چل کر ایرانی فوج سے مورچوں تک دست با دست جنگ لڑتے رہے۔ ایرانی فوج کے پاس ٹینک جنگی جہاز اور جدید امریکی اسلحہ تھا لیکن دادشاہ اپنی بہن اور ساتھیوں کے ساتھ ایرانی فوج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیااور ناکامی کے بعد ایرانی فوج نے مجبور ہوکر مزاکرات کیا اور مزاکرات کے بہانے دادشاہ کو قتل کروایا۔ بلوچ جنگوں سے کبھی نہیں ڈرتے کیونکہ انکی تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے۔اب بلوچ قوم کی جنگ آزادی تیسرے دور میں داخل ہوچکی ہےجنگ آزادی کی تیسرے دور کی زمہ داری زیادہ تر خواتین پر عائد ہوتی ہیں۔ جنگ آزادی کی تیسری دور میں اگر خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تو سمجھو کہ ہماری منزل دور نہیں اور آزادی کی منزل کو پہنچنے سےکوئی بھی طاقت اور قوت روک نہیں سکتا۔ اگر خواتین نے اپنی کمزوری دیکھاہی تو آزادی کی منزل دو قدم پیھچے چلی جائے گی۔ اگر خواتین نے ہر اول دستے کی کردار ادا کیا تو آزادی کی منزل دو قدم آگے نکل جائے گی۔ جنگ اسلحہ سے نہیں جذبہ سے لڑی جاتی ہے۔ جنگ ہمیشہ حق اور باطل کے درمیان لڑی جاتی ہے۔

جنگ میں دونوں فریقین اپنے آپ کو حق پر کہتے ہیں۔کہ ہم حق پر ہیں اور دوسرے باطل پر ہے۔ اور ہم جیت جاہیں گے کیونکہ جیت ہمیشہ حق کی ھوگی۔ آپ دونوں کو پہچان سکو گے کہ کون حق پر اور کون باطل ہے۔ یہ دونوں فریقین کی پہچان آسان ہے۔ کہ کوئی فریقین تنخواہ اور مراعات پر جنگ کررہے ہیں،کون اپنی عہدے اور پیسے کے لئے کون اپنی بیوی اور بچوں کی ضروریات اور خواہشات پوری کرنے کےلیے جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔ دوسرے فریقین بغیر مراعات بھوکا پیاسا ہوکر بھی جنگ کرنا پسند کرتے ہیں اور شھادت کی تمنا رکھتے ہیں اور اپنی قوم اور سرزمین کو غلامی سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ وہ طبقہ بھوکے پیاسے ہوکر اپنی سروں پر کفن باندھ کر پہاڑوں کی گود میں بیٹھ کر اپنی زندگی گزارتے ہیں اگر دنیا کی تاریخ کو دیکھا جائے تو وہ طبقہ جیتے گا۔ جو شھادت کی جزبہ سے سرشار ہوگا ہمیں یقین ہیں کہ بلوچ سرمچار جیت جاہینگے۔

بلوچ تحریک آزادی میں خواتین پر باری زمہدایاں عاہد ہوتی ہیں۔
تعلیم یافتہ خواتین کی ذمداری ہوتی ہیں کہ میڈیا کو ہتھیار بنا کر ریاست سے جنگ لڑیں اور شہروں میں چھاپہ مار کارویوں میں بھرپور حصہ لیں۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین بازاروں میں زیادہ کارروائی کرسکتی ہیں اور زیادہ کامیابی حاصل کرسکتی ہیں۔

بے تعلیم خواتین کی زمہدایاں ہیں کہ وہ گھریلو بزنس شروع کریں اور گھر گھر میں جاکر خرید اور فروخت کے ساتھ ساتھ تبلیغ کرنی چاہیے کہ ریاست پاکستان نے ہمیں غلام بنا کررکھا ہے غلامی کے خلاف جنگ کرنا لازمی ہے اور جو مرد پہاڑوں میں جنگ کررہے ہیں ان کے لئے دعا کرنا گھروں میں جاکر بلوچ سرمچاروں کی کامیابیوں کی تعریف کرنا اور بزدل ریاستی فوج کی شکست بیان کرنا اور ہر ریاستی ظلم کے خلاف سڑکوں پر نکل آنا اور روڈوں کو بلاک کرنا انکی زمہ داریوں میں سے ایک اہم زمہ داری ہیں۔ اگر گھر کے اندر ایک خواتین انقلابی ہوتو سارے گھر والے انقلابی بن جاہینگے سارے گاؤں میں اگر چار یا پانچ خواتین انقلابی ہوں تو پورا گاوں انقلابی ہوگا۔ تو بلوچ سرمچاروں کےلئے دشمن کے ساتھ جنگ لڑنا آسان ہوگا۔ اور جنگ خوشی خوشی جیت جائے گا اور دشمن شکست کھا کر بھاگنے پر مجبور ہوگا۔ جب دشمن بھاگ جاہے گا تو علاقہ کی کنٹرول انقلابیوں کے ہاتھ میں ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔