جنازہ تھا یا پھر کسی سالونک کی شادی تھی! – عزیز اکرم

411

جنازہ تھا یا پھر کسی سالونک کی شادی تھی!

تحریر: عزیز اکرم

دی بلوچستان پوسٹ

ہلکا پھلکا سا بدن، سوکھی جیسی کمر تن، بدن دیکھنے میں ایسا کہ تیز ہوا آئے تو اُڑا لے جائے اور چشم دید گواہاں کو میں نے یہ کہتے ہوئے سُنا کہ یہ آمنے سامنے ایسا تھا گویا اب یا کچھ دیر بعد گر کر اجل کی امانت ہوجائے یعنی پورے خاندان اور پورے محلے میں یہ ناکارہ لڑکا سمجھا جاتا تھا۔ ایک ایسی جسامت کا مالک تھا۔

مگر ایک ایسی ہی جسامت کے مالک نے آج مینار جیسے سیدھے ‘بلّخ بُٹّ’ کے پہاڑ، چار بھائی جیسے ‘چار کوہاں’ اور سرزمین رخشان کے نامور پہاڑ ‘راسکوہ’ کہ جس کے سینے میں ایٹمی بم لگنے کے باوجود راسکوہ اپنے شان و شوکت سے کل تک اُسی طرح کھڑا تھا کہ جیسے صدیوں سے کھڑا رہ رہا تھا اور ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ اس راسکوہ کو کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ مگر آج ماں باپ کے ایک سوکھے بدن والے شہزادے اور بھائی بہن کے ایک ہلکے بدن والے بھائی نے ‘بلّخ بُٹّ، چار کوہاں سمیت رخشان کی ریڈ کی ہڈی بلند و بالا پہاڑ راسکوہ’ کو اپنی قربانی کے سامنے شرمسار کردیا۔

روایت تو یہ ہے اور یہ روایت صدیوں چلی آرہی ہے کہ کوئی اولاد آدم اس دنیا فانی سے رُخصت ہوجائے تو لواحقین سمیت جنازے میں موجود ہر ایک یہی کہتا ہے کہ میں اپنے تمام حق و حقوق اس میت کو تا قیامت معاف کرتا ہوں، اور حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ روایت شرعی بھی ہے۔

مگر آج ایک ایسی میت کے جنازے میں مجھے شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی کہ جہاں میں نے اس دقیانوسی روایت کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا اور سُنا، یعنی زندگی میں پہلی بار زندہ لوگوں نے ایک مرے ہوئے میت سے کہا کہ تم اپنے حق و حقوق ہمیں معاف کرو۔

کیوں کہ تمہارے حقوق ہمارے سر پر اتنے ہیں، کہ جنہيں ہماری سات نسلیں بھی ادا نہیں کرسکتی اور اگر چاہے بھی تو ادا نہیں کرسکتی۔

یعنی آج میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار زندہ لوگوں کی منہ سے ایک میت کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ آپ کا اس کائنات سے جانا ہم سب پر ادھار ہے اور آپ کا یہ قرض سات نسلوں تک بھی ہم پر رہے تو بھی تمہارا یہ قرض ادا نہ ہوسکے گا۔ اس لیے آپ اپنے حقوق ہمیں معاف کریں۔

اور یہ بھی انسانی معاشرے کی ایک فطری و نفسیاتی روایت ہے کہ جب کوئی اس لاپرواہ دنیا سے رُخصت ہوجائے تو اس کے عزیز اقارب آنسو بہاتے ہیں اور اُس کی ماں فریاد کرتی ہے اور حالت فریاد میں کُفریہ الفاظ بھی اپنی منہ سے ادا کرتی ہے اور دوراں فریاد اللہ رب العزت کو کوستی ہے، اور اُسکی بہنیں اپنے دوپٹے سر سے اُتار کر اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے زانوں پر زور زور سے مارکر اپنے منہ بجانب آسمان کرکے روتی ہیں، اور اگر مرنے والا شادی شُدہ ہو تو اُسکی بیوی بیوا ہوجاتی ہے، اور اپنے ہاتھوں کی چوڑیاں توڑ دی دیتی ہے، اور رنگین کپڑے پہننا چھوڑ دیتی ہے، اور اگر بچے ہوں تو بچے یتیم سمجھے جاتے ہیں، کیوں کہ جو ہمارا عزیز، بیٹا، بھائی، اُستاد، شاگرد، دوست، رشتہ دار، ہمسایہ تھا اور اب وہ اس جہاں فانی سے رُخصت ہوگیا ہے اور اب وہ ہم میں نہیں رہیں۔

اور یہ رونا دونا آنسو بہانا دوپٹوں کا سر سے اتار کر پھاڑنا ہاتھوں کا دونوں زانوں پر مارنا یہ سب کے سب کوئی اداکاری نہیں بلکہ یہ سب کے سب انسانی احساسات انسانی نفسیات کے بلکل ہی عین اور اصل جُز ہیں!

مگر آج جس میت کے لواحقين سمیت جنازے میں شامل ہر شخص کو میں نے دیکھا تو ہر شخص ایسا نظر آرہا تھا کہ جیسے کسی کے نکاح میں آئے ہوں اور آج اس جنازے میں مَیں نے انسانی معاشرے کے فطری احساسات و نفسیات دونوں کو اپنی آنکھوں سے کُچلتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔ آج ماں، باپ، بہن بھائی، دوست، استاد، رشتہ دار، ہمسایہ سب کو رونے دونے کے بجائے بلوچی میں ‘ھلو ھالو ھَلو’ گاتے ہوئے سُنا اور جنازے میں آئے ہوئے تمام لوگ ایسے خوش ہوتے ہوئے بھی دکھائی دیئے جیسے کہ کسی سالونک (دولہے) کا نکاح ہورہا ہے، اور ہم سب اُس سالونک کے نکاح میں مہمان بن کر آئے ہیں اور ایسے مہمان بن کر آئے جنہیں کسی نے دعوت ہی دی نہیں ہے اور نماز جنازہ کے بعد جب اُسے کندھوں پر اُٹھایا گیا اور دفنانے کیلئے لحد کی طرف لے جایا گیا تاکہ جسکی امانت ہے اس میت کو اُسی کے حوالے کریں تو اُس وقت ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کہ اس شہزادے کے نکاح پڑھنے کے بعد ہم اس کو اس کی بیوی کے پاس عُقدہ کرنے کے لیے لے جارہے ہیں اور آج زار و قطار رونے کے بجائے ماں، بہنوں کے منہ سے جو آوازیں آرہی تھیں وہ رونے دھونے کی نہیں تھیں بلکہ وہ آوازیں مزاحمتی صداؤں کی تھیں، انقلابی نعروں کے تھیں۔

یعنی ایک ایسی میت کے جنازے میں مجھے آج جانا نصیب (اور اپنے ہاتھوں سے اُسے لحد میں اُتھارنے کی بھی سعادت نصیب) ہوا کہ جہاں مجھے کوئی پریشانی محسوس نہیں ہوئی البتہ یہ پتہ نہیں چل پارہا تھا کہ یہ کسی کا جنازہ ہے، یا پھر کسی کی بارات ہے اور مجھے یہ معلوم کرنے میں شاید شاید بلکہ شاید نہیں یقیناً صدیاں لگے کہ یہ کسی کی میت تھی یا پھر کسی کی شادی خانہ آبادی تھی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔