لاپتہ بلوچ طلبہ کیس حساس معاملہ ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ

216

پاکستان کے اسلام آبادہائی کورٹ نے کہا ہے کہ بلوچ طلبہ لاپتا کیس حساس معاملہ ہے، ریاست کو اپنی ذمے داری پوری کرنی ہوگی۔

پاکستانی عدالت نے بلوچ جبری گمشدگی انکوائری کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کے کیس میں وفاق کی جانب سے سفارشات سے متعلق عمل درآمد رپورٹ جمع کرانے کے لیے مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے کہاہے کہ توقع ہے وفاقی حکومت کمیشن سفارشات کے تناظر میں تحریری آرڈر پاس کرے گی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی، جس میں ایڈووکیٹ ایمان مزاری عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔

عدالت نے استفسار کیاکہ کیا وفاقی حکومت کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد میں دلچسپی رکھتی ہے یا نہیں ؟جبری گمشدہ بلوچ طلبہ سے متعلق رپورٹ وفاقی حکومت دیکھے گی یا عدالت فیصلہ کرے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ وفاقی حکومت بالکل اس میں دلچسپی رکھتی ہے۔ تین چار اسٹیک ہولڈرز اس میں شامل ہیں۔

جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا کیس ہے، حساس معاملہ ہے۔ بلوچستان سے طلبہ مسنگ ہیں، یہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ دیکھے، کورٹس نے تو فیصلے دینے ہیں۔ کافی فیصلے موجود ہیں لیکن یہ دیکھنا بطور ایگزیکٹو وفاقی حکومت ہی نے ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مسنگ پرسنز کی فیملیز آج بھی ان کو تلاش کر کررہی ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اس حوالے سے بہت تفصیلی آرڈر کیا تھا۔ ریاست کو اپنی ذمے داری پوری کرنی ہے کہ شہریوں کی حفاظت اس کے ذمے ہے۔ وفاقی حکومت دیکھ لے، پھر ڈاکومنٹ ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔

ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہاکہ جو تعلیمی اداروں کو وزٹ کرتے رہے، ان کے خلاف کیا ایکشن ہوا؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ وفاقی حکومت رپورٹ دے پھر عدالت دیکھے گی کہاں تک ایشو حل ہوا۔ ریاست کو اپنا کام کرنا ہے کیوں کہ اس کے گہرے اثرات ہیں۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی۔