ایران حجاب معاملہ : تشدد سے قومہ میں جانے والی ارمیتا گراوند جانبر نا ہوسکی

110

کم عمر نوجوان تشدد کے بعد گذشتہ ایک ماہ سے قومہ میں تھی، عالمی میڈیا کی نوجوان کی ہلاکت کی تصدیق

رواں ماہ ایران میں ایک سولہ سالہ لڑکی کو حجاب کے قانون کی خلاف ورزی پر مبینہ طور پر تہران میٹرو کے اہل کاروں نے مارا پیٹا جس سے وہ کوما میں چلی گئی اور اسے اسپتال داخل کروا دیا گیا۔ انسانی حقوق کے تنظیموں نے اس وقت بتایا تھا تشدد سے ارمیتا گراوند کی حالت تشویش ناک ہے۔

واضح رہے یکم اکتوبر کو کوما میں چلے جانے کے بعد گیراوند کو گزشتہ ہفتے برین ڈیڈا قرار دیا گیا تھا۔

اس سے قبل ہی ارمیتا گراوند کی تشویش ناک حالت کے پیش نظر یہ خدشات سر اٹھا رہے تھے کہ اسے بھی 22 سالہ ایرانی خاتون مہسا امینی جیسی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے، جنھیں گذشتہ سال حجاب نا پہنے کے صورت میں ایران کے اخلاقی پولیس کی جانب سے تشدد کا بنایا گیا جس کے بعد وہ جانبر نہ ہوسکی۔

حکام نے انسانی حقوق کے گروپس کے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے کہ گرا وند اتوار کے روز اسلامی ڈریس کوڈ نافذ کرنے والے افسروں کی مار پیٹ کے بعد کوما میں چلی گئی تھی۔

ایران میں قانون کے مطابق خواتین کو اپنے بال ڈھانپنے اور لمبے ڈھیلے کپڑے پہننے کی ضرورت ہے، جبکہ 1979 میں ایک انقلاب میں سیکولر اور مغربی حمایت یافتہ شاہ کو معزول کر دیا گیا تھا۔

ایران میں حجاب نا پہنے پر سخت قانون کے باعث متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ سال ایرانی زیر انتظام کردستان میں مہیسا امینی کا واقعہ ملک کی تاریخ میں سب سے بڑی حکومت مخالف مظاہروں اور جھڑپوں کے سبب بنی-

ایران مظاہروں میں اس وقت کئی سو افراد کی ہلاکت کی بھی اطلاعات موصول ہوئی تھی جبکہ مظاہروں کے چلتے درجنوں سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان کو گرفتاری بعد پھانسی دی گئی ہے-

انسانی حقوق کے تنظیموں کے ایک اندازے کے مطابق گذشتہ سال ستمبرکے وسط میں کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس کے زیرحراست ہلاکت کے ردعمل میں شروع ہونے والے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں 448 افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔ ان میں سے نصف سے زیادہ ہلاکتیں ملک کے نسلی اقلیتی علاقوں میں ہوئی تھی-