ایران دمشق حملے کو تنازعہ بڑھانے یا امریکی تنصیبات پر حملےکے بہانے کے طور پر استعمال نہ کرے – وائٹ ہاؤس

88

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری نے جمعرات کو معمول کی بریفنگ میں کہا ہے ہم نہیں چاہتے یہ تنازعہ پھیلے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران دمشق میں اپنے قونصل خانے پر حملے کو خطے میں تنازعہ بڑھانے یا امریکی تنصیبات یا عملے پر حملے کے بہانے کے طور پر استعمال نہ کرے ۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرن یاں پئیر نے مزید کہا کہ امریکہ نے ایران پر واضح کر دیا ہے کہ امریکہ دمشق حملے میں ملوث نہیں ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب ایران نے واشنگٹن کو اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنے شامی سفارت خانے پر اسرائیل کے حملے کا جواب دے گا، وائٹ ہاؤس نے اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکہ کے “آہنی” عزم کی تصدیق کی ہے۔

ذرائع نے بتایا ہےکہ واشنگٹن کو ایران کا پیغام ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اتوار (7 اپریل) کو ریاست عمان کے دورے کے دوران پہنچایا، جس نے کئی بار تہران اور واشنگٹن کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔

جمعرات کو وائٹ ہاؤس کی معمول کی بریفنگ پریس سیکرٹری کیرن یاں پئیر سے اس بارے میں متعدد سوال پوچھے گئے۔

ایک صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہ ایران اسرائیل کے خلاف ایک بڑے حملے کی دھمکی دے رہا ہے۔ خطے میں امریکی اثاثوں کی موجودگی میں، امریکہ اس کا کس طرح جواب دینے کے لیے تیار ہے؟

جین پیئر نے صدر بائیڈن کی بدھ کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر نے یقینی طور پر ان دھمکیوں کے بارے میں امریکہ کے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

امریکی صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ ایران اپنے قونصل خانے پر حملے کے جواب میں اسرائیل کے خلاف کارروائی کی دھمکی دے رہا ہے اور اسرائیل کے لیے ہماری امداد اور عزم آہنی ہے۔ وہ دورے پر آئے جاپان کے وزیرِ اعظم فومیو کیشیدا کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

پیئر نے کہا صدر بائیڈن نے یہ بھی واضح کر دیا کہ امریکہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے آہنی عزم رکھتا ہے خاص طور پر ان خطرات کے خلاف ہے جو ایران اور اس کی پراکسیز سے آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا میں یہاں کسی آپریشنل طریقہ کار میں نہیں پڑوں گی۔ صدر نے کل ہی خود کو بہت واضح کر دیا ہے۔ اور اس لیے میرے پاس مزید کچھ نہیں ہے۔

ایک صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہ آیا اسرائیل کے خلاف ایرانی حملے کے جواب میں ہمیں مشترکہ حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیے؟”

کیرن یاں پئیر نے کہا ” میں یہاں مفروضات میں نہیں پڑنا چاہتی۔ ظاہر ہے کہ ہم نے ایران سے آنے والی دھمکیوں کو دیکھا ہے۔ اور اس لیے ہم نے خود کو بہت واضح کر دیا ہے۔ ہم اسرائیل کی سلامتی کی حمایت میں جو آہنی عزم رکھتے ہیں اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

ایک صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہ “آیا ایران نے واشنگٹن کے ساتھ ثالثوں کے ذریعے اس بارے میں رابطہ کیا ہے کہ جب وہ شامی سفارت خانے پر اسرائیل کے حملے کا جواب دے گا تو وہ وسیع نہیں ہو گا؟”

جین پیئر نے کہا “ظاہر ہے ہم نہیں چاہتے کہ یہ تنازعہ پھیلے۔ ہم اس کے بارے میں ایران کے لیے بہت واضح رہے ہیں کہ ہم دمشق حملے میں ملوث نہیں ہیں۔ ہم نے ایران کو بتایا کہ اس حملے میں امریکہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا،”ہم نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس حملے کو خطے میں مزید کشیدگی پیدا کرنے یا امریکی تنصیبات یا اہل کاروں پر حملہ کرنے کے بہانے کےطور پر استعمال نہ کرے۔”

اس حملے نے، جس میں ایک اعلیٰ ایرانی جنرل کو ہلاک کر دیا گیا تھا، غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے خطے میں پھیلنے والے تشدد میں ایک بڑے اضافے کی نشاندہی کی ہے۔

تہران نے احتیاط سے تنازعے کے علاقائی پھیلاؤ میں کسی بھی براہ راست کردار سے گریز کیا ہے، جب کہ عراق، یمن اور لبنان سے حملے کرنے والے گروہوں کی پشت پناہی کی ہے۔