مری قبیلے کے دو عظیم شاعر ۔ سمّو بلوچ

304

مری قبیلے کے دو عظیم شاعر

تحریر: سمّو بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مری قبیلہ بلوچستان کے علاقے کوھلو کاھان چمالنگ ماوند تمبو نلی اور کئی علاقوں میں آباد ہے۔ مری قبیلہ بلوچ قوم کا بڑا قبیلہ ہے۔ یہ قبیلہ اپنی بہادری وطن دوستی اور اپنی راجدوستی کےلیے جانے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ھے مری کے معنی ضدی ہے لیکن فارسی میں مری بغاوت کرنے والے کو کہتے ہیں۔انھوں نے ھمیشہ بیرونی طاقتوں کے خلاف وطن کی دفاع کی۔ اس قبیلے میں کئی نامدار اور بہادر بلوچ جنگجو اور شعرا کا جنم ہوا جن میں خداداد مری ,بھار خان مری, نہالاں مری, بیورغ مری, نواب خیربخش مری اول اور دوم, مست توکلی, بجار خان مری, رھم علی مری ,علی ھان مری ,غلام مھمد مری قابل زکر ہیں۔اس کے علاوہ شاہ مھمد مری میر مٹھا خان مری اور صورت خان مری جیسے مصنف بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ھیں۔ مری قبیلے کی تین بڑی شاخیں ھیں ( گزینی ,بجرانی, لوھارانی)

مری قبیلے کے دو عظیم شعرا:
یوں تو مری قبیلے میں کئی شعرا ھیں اور تاریخ میں بھی کئی شعرا کا زکر ھے جو اپنی شاعری کے لیے تاریخ کے سنھرے پنوں میں درج ھیں۔ ھمارا موضوع مست توکلی اور رھم علی مری ھیں۔

مست توکلی:

پیدائش:

مست توکلی بلوچستان کے علاقے کاھان (مانڑک بند )میں پیدا ھوئے۔ ان کے پیدائیش کی اسلی سال تو معلوم نہ ھوسکی لیکن کہا جاتا ھے کہ وہ 1825_1829 کے درمیاں پیدا ھوا۔ وہ ایک عام بلوچ تھے اور اپنے علاقے میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے۔چونکہ اس وقت ان علاکوں میں تعلیم نہ تھی تو انہوں نے تعلیم ھاصل نہ کی۔ ان کی تعلق مری قبیلے کے شیرانی شاخ سے تھی۔

مست توکلی کی سمو سے ملاقات:

مست توکلی ایک دفعہ اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کے لہے گھر سے نکلے۔ ایک دن وہ کوھلو کی طرف روانہ ھوئے اور وھاں ان کو بارش نے آگے سفر کرنے سے روک لیا اور انہوں نے رامو نامی ایک آدمی کے گھر پناہ لیا۔ رات کو جب بارش تیز ھوئی اور تو اس گھر کی بانُک باھر نکلی اور تورا( پیش کی تمبو) کی لکڑی کو سمبھال رھی تھی تو اس وقت مست توکلی کی نظر اس لڑکی پر پڑی ۔ اس کے بال کھلے ھوئے تھے اور ڈوپٹہ بھی تیز ھوا کی وجہ سے اٗڑ گئی تی۔ مست توکلی اپنے ھوش ءُ ھواس کھو بیٹھا اور اس لڑکی کی مھبت میں دیوانہ ھوگیا۔ اس لڑکی کا نام سمّو تھا ۔سمو ایک شادی شدہ عورت تھیں اور اس وقت تکریبا ان کی عمر 17_18 سال تھی۔ سمو ایک سبزہ رنگ وھش_دروشم لڑکی تھی۔ سمو کا گھر کوھلو کے علاقے مخماڑ میں تھا۔ مست سمو کے بعد بالکل ھی بدل گیا وہ پوری رات سمو کے بارے میں سوچتا رہا ۔صبح جب دوستوں نے واپس جانے کا منصوبہ کیا تو مست نے جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ یہیں سمو کے علاقے میں رھے گا۔ مست اس کے بعد سے وھیں رھنے لگا۔

مست ایک شعر میں سمو کی خوبصورتی کچھ یوں بیان کرتے ھیں,


شف گروخی گوں لاغریں شینکاں
ملغّی ڈئیل گوں ریشمی ھبّراں
دروشماں داث چھو تانہی نوزاں
چھم ۓ شراں تھنگویں دیما
بمبویں جاد گوں بارغیں سرین ءَ
ترنداں چھو آمِڑ داثغیں تیغ ءَ

دیوانگی و شاعری:

مست توکلی نے جب سے سمو کو اپنی آنکھوں میں بٹھا لیا تو اس کے بعد سے اس کو کوئی اور نظر نہیں آیا وہ اس قدر دیوانہ ھو چکا تھا کہ وہ ھر جگہ جاتا سمو کا زکر کرتا اور اس سمو کی یاد میں وہ کوھلو سے کبھی سندھ تو کبھی کوہ سلیمان کی پہاڑی سلسلوں میں شاعری کرتا رہا اور سمو کو یاد کرتا رہا۔
مست کی شاعری سمو سے شروع ھوتی ھے اور سمو پر ختم ۔
ایک جگہ مست توکلی سندھ کا زکر کرتے ھوئے کہتے ھیں

تھئی زھیر من ءَ سندھ ءِ چو بیٹاں گار کھناں
من شتو سندھ ءَ اژ مژو جھنگاں گوستگاں
پھازاں نال بستہ پہ ڈغارانی چھاگغاں
چھماں ھون مستاں پہ شوانی گوزوھاوہاں

ایک اور جگہ کہا:

مست جالی من کوہ سلیمان ءَ
کوہ ۓ بیھو ءُ سندھ ءِ میزان ءَ
گنجیں دلی دا شھر خراسان ءَ

مست کی دیوانگی کا کچھ قصے سنانا چاہونگا :

ایک دفعہ مست کسی کے گھر پناہ لے رھا تھا میزبان مست کے لیے کھانا لے کر آیا مست نے کھانا کھانے سے انکار کردیا اور کہا
“شا یک مڑدے نغن پچھے آڑتہ سمو نغن تھامیں ؟”
یعنی آپ صرف ایک بندے کا کھانا کیوں لائے ھیں سمو کا کھانا کدھر ھے۔

ایک دفعہ پٹھان اور مریوں میں کسی زمین کو لاکر تنازہ کھڑا ھوگیا ۔چونکہ مست ایک بزرگ اور انصاف پسند انسان تھے تو لوگوں نے مست کو بلایا اور کہا کہ وہ اس زمین کا فیصلہ کریں تو مست نے کہا
” سمو ءِ زوین ۓ بھر ءَ دئیں گڑا من شئے فیسلہ کھناں”
یعنی سمو کے زمین کا ھسہ دیں پھر میں فیصلہ کروں گا۔

مست کی دیوا نگی کا انتہا دیکھیں کے وہ ھر وقت سمو کو اپنے پاس ھی مھسوس کرتا تھا کہ سمو ھر وقت اسی کے پاس ھے۔

وفاداری:

مست سمو سے پوری زندگی پیار کرتا رھا سمو کے علاوہ اس نے کبھی کسی اور عورت کی طرف نہیں دیکھا ۔
ایک دفعہ ان کو ڈیرہ غازی خان میں کسی کوٹھڑی میں ایک غیر عورت کے ساتھ رکھا گیا تاکہ وہ مست کی وفاداری جانچ سکیں۔ سبح اس عورت نے ان کو کھا کہ مست نے ایک بار بھی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نھیں دیکھا۔

مست خود بھی اس واقعے ک اپنی شعر میں اس طرح زکر کیا

دیروۓ زالاں مان اثنت درگوشیں پری
سملے عھداں من نہ بھوریناں امبری

مست ءُ فقیری:

مست ایک فقیر اور درویش نما انسان ھوچکے تھے پوری رات ءُ دن وہ سمو کی یادوں میں گم رہتا اور رب کو یاد کرتا رہتا ۔
مست کی فقیری اور بزرگی کے کئی قصے بھت مشھور ھیں چند میں سے چند ایک زکر میں کرونگی۔

جب سمو کو سانپ نے کاٹا اور مست کو اس بات کا اِلم ھوا تو اس نے اوپر دیکھا اور کہا
” ھموزا کی سمو سیاہ مار واڑتہ اوزا کڈھی ھور مواث”
یعنی جس جگہ سمو کو سانپ نے کاٹا وھاں کبھی بارش نہ ہو اور کہا جاتا ھے اج تک وھاں بارش نہیں ھوتی۔

ایک بار مست توکلی سندھ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ ریل کے پٹڑی پر بیٹھے تھے ۔جب دوست نے دیکھا کہ ریل آرہی ھے تو وہ پٹڑی سے ھٹ گیا اور مست کو بھی کہا کہ نیچے آجاو لیکن مست وھیں بیٹھا رھا جب ریل زیادہ نزدیک ھوئی تو مست نے کہا:
“بہ اوشت سمو ۓ لاغ”
اور ریل وھیں رک گئی۔

مست ءُ جام درک:

مست توکلی جام درک سے بھت زیادہ متاثر تھے۔ ان کی شاعری کا انداز مست کو بھت پسند تھا ۔مست کی شاعری میں جام درک کے شاعری کئی انداز ملتے ھیں
جیسے ایک جگہ جام درک کہتے ھیں:

ھجر مناں مھمیلی جننت پاساں
چھو کھیرانی آڑویں آساں

اسی طرح مست کھتے ھیں:

ایزا تھئی زھیر سمو پہر پہ پہری ءَ نوخ باں
ایزا چھو کھیرانی آڑویں آساں روخ باں

وتن دوستی ءُ راجدوستی

مست توکلی ایک وطن دوست اور راج دوست انسان تھے۔ انھوں نے ھمیشہ بیرونی طاقتوں کے خلاف شاعری کے زریعے بغاوت کی ھے۔ وہ ھمیشہ اپنے کوم و وتن کی دفاع کے لیے بات کرتے رہے۔ ایک دفعہ وہ سندھ میں تھے ان کو معلوم ھوا کہ انگریزوں نے کاھان پر ھملہ کر دیا ھے۔مست بھت غمزدہ ھوا اور کہا

کس نہ اِنت کوہا کہ دلی اھوال ۓ گراں
نی پھزا گڑدوں کہ گپتغاں کاھان کافراں

مست صرف وتن دوست ھی نہ تھا بلکہ وہ ایک انصاف پسند انسانیت پسند انسان تھا۔وہ معاشرتی مسائل پر بھی بات کرتا اور ان کو ھل کرنے کی بھی کوشش کرتا۔

وفات :

مست توکلی کی وفات کا سال کا کسی کو معلوم نہیں لیکن کھا جاتا ھے کہ وہ تکریبا 1890_1896 کے درمیان وفات پا گئے۔ مست نے اپنی وفات سے پھلے کہا کہ مجھے مرنے کے بعد وھاں دفن کرنا جھاں جا کر وہ اونٹ رکے گی جس پر میں ھونگا ۔جب مست کی وفات ھوئی تو لوگوں نے ان کو اونٹ پر لاد کر روانہ ھوئے ۔کوھلو سے بیس کلومیٹر آگے جا کر اونٹ بیٹھ گئی ۔لوگوں نے اونٹ کو اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ اٹھا۔ تو لوگوں نے مجبور ھو کر مست توکلی کو وھیں دفن کردیا ۔اس جگہ کو مست میزانگری کے نام سے جانا جاتھا ھے۔
آج بھی لوگ جاکر وھاں ھیرات کرتے ھیں اور منت مانگتے ھیں۔لوگوں کی یکین ھے کہ مست ان کے منتوں کو پورا کرے گا۔

مست توکلی بلوچ قوم کے ایک عظیم شاعر رہے ھیں جنہوں نے تاریخ میں اپنا نمم بنایا اور قوم کی تاریخ کو ادب سے روشناس کیا۔

شاعر رھم علی مری:

پیدائش:
رھم علی مری کوھلو کے علاقے سگھنڑی میں تکریباً 1876 کو پیدا ھوئے۔ جب وہ سات سال کے تھے تو ان کے والد بجار خان مری وفات پا گئے۔ بجار خان مری بھی بلوچ قوم کی ایک بھادر اور جنگجو شخص اور شاعر تھے۔ان کی والدہ بھی پہلے انتقال ھوگئیں تھیں۔ رھم الی مری اب یتیم تھا۔ وہ بچپن میں اپنے ماما کے گھر رھے اور چرواہی کرتے رھے۔

شعر و شاعری:

رھم علی مری کو چونکہ شاعری ورثے میں ملی تو وہ بچپن سے چھوٹے چھوٹے شعر بنایا کرتا تھا۔ ان کے والد بجار خان مری اور ان کے دادا بھی ایک شاعر تھے۔ رھم علی مری نے چھوٹے عمر سے ھی شاعری شروع کی۔ انھوں نے معاشرے کے ھر پھلو پر غور کیا۔اور وہ انصاف برابری معاشرے میں ھونے والی ھر عمل پر غور کرتے تھے۔ وہ گربت افلاس وغیرہ پر بھی غور کرتے ۔وہ سڑداری نظام کے خلاف تھے اور عوام کے مسائل کے لیے جھد کرتے تھے۔
ایک شعر میں وہ کہتے ھیں

نیم کھٹانی سرا اِنت نیم رُلّی نیم شفاں
نیم دفی زمبے نہ گندیث نیم داری نوکراں
نیم شاد و مُرازاں نیم نالی پہ غماں

ان کی زیادہ تر شاعری جنگ ءُ جدل پر ھے۔ چونکہ اس وقت بلوچستان پر انگریزوں کا کبزہ تھا تو مری علاقوں میں مری قبیلے اور انگریزوں کے درمیان جنگ زور و شور پر تھا۔ وہ خود انگریزوں کے خلاف تھا اور کئی جنگوں میں انہوں نے ھصہ بھی لیا۔

ایک شعر میں وہ کھتے ھیں

گنڑسہ سے چھیار ننگ ءَ
سلاہ بستہ ھمے رنگ ءَ
مری اِنت پھولغیں درنگ ءَ
دلش پہ پیسواں ٹنگ ءَ

مست توکلی ءُ رھم علی مری کا واقعہ :

ایک دفعہ مست توکلی کوھلو آئے۔رھم علی کے ماما نے ان کو اپنے گھر پناہ دی رھم علی اس وقت چھوٹا تھا ۔تمام لوگ آکر جمع ھوئے اور مست توکلی سے ھال اھوال کی اور دیر رات تک مھفل سجی رھی۔رھم علی بھی اس مھفل میں بیٹھے تھے۔ رات بھت ھوگئی تو سب اٹھ کر اپنے کر اپنے گھروں کو چلے گئے۔ مست نے جب دیکھا کہ ایک بچہ وھاں اکیلے بیٹھا ھوا ھے تو اس نے کہا:
“تم بھی اب گھر جاو تمھارے ابا تمھارا انتزار کررہے ھونگے”
رھم علی نے جواب دیا:
“مناں ابا نیست”
مست توکلی نے پھر کہا:
“گڑا تھئی امے تھئی انتزار کھنغیں برو لوغا بچ”
رھم علی نے جواب دیا :
“مناں امے دہ نیستیں”
یہ سن کر مست توکلی غمزدہ ھوگئے اور رھم علی کےپیٹھ پر تھپکی دی اور کہا,
“مرشی تھرا ماث پث نیست اِنت بل بانگہا تھو اے قوم ۓ ماث پث بئے”

بلوچی ھال اھوال :

بلوچی ھال اھوال بلوچی ثقافت کا ھصہ ہے۔ اگر کسی کو ھال اھوال نہ آتا ھو تو وہ عیبدار ھوجاتا ھے۔ رھم علی مری سے جب کوئی ھال لیتا تو وہ شاعری میں اپنی ھال سناتے ۔وہ اس انداز میں ھال بتاتے کہ شعر بھی بن جاتا اور ھال بھی لوگوں کو مل جاتا ۔
ایک دفعہ ایک مھفل سجا ھوا تھا تبھی رھم علی مری آئے ۔ان سے ھال مانگی گئی کہ

“جی ادا ھالے۔۔۔”
تو انھوں نے کہا

ھال مے ھیراں بیسغوں ھندا
شان بھری کوہا نزہ ءُ مندا

گُمبد جنگ :
1914_1918 کی جنگ غظیم کے وقت انگریز زور و شور پر تھا ۔انھوں نے بلوچوں سے بھی فوج کی بھرتی مانگی۔لیکن مری سردار نواب خیر بخش مری اول نے ان کو صاف صاف انکارکردیا اور کہا کہ وہ ان کے فوج میں کبھی بھرتی نھیں ھونگے۔اور پھرنواب نے جنگ کا اعلان کیا کہ گمبد میں انگریزوں کے قلعے پر ھملہ کرنا ھے۔ تمام راج دوست اور وتندوست مری یکجاہ ھوئےاور جنگ کی تیاریاں کرنے لگے۔کسی نے توپک اٹھائی تو کسی نے تلوار تمام اپنے وتن کی دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نظرانی پیش کرنے جارہے تھے۔ان مریوں کے نگرانی کرنے والے نواب خیربخش مری اول خود تھے۔ ان کے علاوہ خداداد مری بیورغ مری نھالاں مری علی ھان مری اور بھی کئی بھادر زمینزاد جنگ میں شامل تھے۔ جب مری گمبد کے کلعے تک پھچے تو دوسری طرف انگریزوں نے جن کے پاس کئی اصلاح توپ توپک اور کئی طرح کے ھتیار تھے اور ھزاروں کی تعداد میں تھے نے گولیوں کی برسات کردی۔ مریوں نے آخری سانس تک جنگ کی اور یہاں تک کہ علی ھان مری نے کلعے کو پار کرکے اس کے دروازے تک بھی جنگ کرتے ھوئے پہنچ گیا ۔رھم علی مری علی ھان کے بھادری کو یوں بیان کرتے ہیں

الی ھان پُجسہ تاک ءَ
مزتے داسغنت پاک ءَ

رھم علی مری نے گُمبد کے جنگ میں ھصہ لینے والے تمام بھادروں پر شعر و شاعری کی۔ انہوں نے گمبد کے جنگ پر ایک پورا داستان لکھا۔ اس داستان کے کچھ سطور یہ ہیں:

سرا نوزاں گوں نوز گوارا
شھیدی کپتہ بازارا
مڑغ اَث داز الی مستیں
بھازر ءُ زوردستیں
سماراں کھلوانڑی آں
گزایاں گون ءُ سانڑی آں

کردار نگاری:

چونکہ رھم علی مری جنگ کے میدان میں رھتے تھے تو ان کی پوری شاعری جنگ اور جنگ کرنے والے بھادروں پر ھے۔ انھوں نے تمام شھدا کا اپنی شاعری میں زکر کی اور ان کو تاریخ میں زندہ کر دیا۔ زمین پر شھید ھونے والوں کو زمین خود نمیران کرتا ھے یہ بات سچ ھے۔ رھم علی مری نے ان تمام شھدا کو اپنی شاعری میں زندہ رکھا اور ان کی شاعری کو آج تک بلوچ قوم نے زندہ رکھا ھے۔
انھوں نے اس وقت کے تمام بھادر اور تمام وتن دوست افراد کو اپنی شعروں میں پرویا ھے۔ ان میں خداداد مری نواب خیر بخش مری اول ھلی ھان مری بیورغ مری نہالاں مری کے علاوہ اور بھی بھادر افراد شامل ھیں۔

نواب خیر بخش مری اول کے بارے میں رھم علی مری لکھتے ھیں:

ھزار شاواش ایں خیر بشک ءَ
ھزوری جاپری درشک ءَ
سکی ءُ سھو ءِلکھ بشک ءَ
مزن ناو ءُ گریب پالا
نخسئی کافر ءَ ٹالا

خداداد مری کے بارے میں رھم علی کھتے ھیں:


خداداد بنگ ءُ بورانی
وروھنیں لیڑو ءِ سانی
سلاہ اش بستاں جنگانی
براھنیں تیغ ھراسانی

بیورغ مری کے بارے میں شاعر رھم علی لکھتے ھیں:

جڑی جینھر کھناں گواراں
رواں بیورغ ءَ سنگھاراں
تھئی تازی مں جھنڑ ساراں
ھمے زات ۓ سپاہ داراں
نئیں ماث اش پھزا کھاراں
پھزی نند اَنت ءُ گیراراں

باھر ءُ نھالاں کے بارے میں شاعر لکھتے ھیں :

نہکیں باھر ءُ نھالاں
کواں زیراں ھور پالاں
سخی ءُ نیغ ءُ ننگ پالاں
درہ بے مٹ ءُبے سیالاں

خداداد مری , باھر مری, نھالاں مری اور بیورغ مری چاروں بھائی تھے اور گمبد جنگ میں شریک تھے۔

راجدوستی ءُ وتن پرستی:
رھم الی مری ایک وتن پرڈت اور راجدوست انسان تھے وہ جانتے تھے کہ انگریزوں نے ان پر ان کے قومءُ زمین پر قبضہ کیا ھوا ھے۔ وہ اس قبضے کے خلاف جنگ ءُ شاعری دونوں طرح سے جھد کررہے تھے انھوں نے زیادہ تر شاعری زمین قوم اور شھیدوں پر کی۔ انہوں نے غلامی کے خلاف ھر وقت بات کی۔ ان کا کہنا تھا
” اغاں گلامی شئے جسم و ھون نیاما جور رنگ ءَ برو گڑا ایشی کشغ باز گران بی”
یعنی اگر غلامی آپ کے جسم و خون میں زھر کی طرح گھل جائے تو اس کو نکالنا بھت مشکل ھوگا۔ ان کی پوری زندگی جنگ ءُ جدل میں گزری اور انھوں نے اپنے لوگوں کو کربانیاں دیتے دیکھا انھوں نے پیاروں کے لاشوں کو زمین پر پڑے دیکھا۔ وہ اپنے ایک شعر میں کہتے ھیں:

ھئیرانی تمن ویران اِنت
سئیت ماں شکلیں جنگان اِنت

وفات:
رھم علی مری کی وفات کا کوئی معلوم نہیں لیکن میر مٹھا خان مری نے اپنے کتاب رھم علی مری میں ان کی وفات 1933 بتائی ھے۔

آج مست توکلی اور رھم علی مری کے نام بلوچ قوم کے تاریخ کے سنھرے پنوں میں درج ھیں اور جب تک بلوچ قوم ھے اور جب تک بلوچستان ھے ان کا نام اور ان کی شاعری زندہ رھے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔