بلوچستان: جولائی کے دو ہفتوں میں جبری گمشدگیوں کے واقعات

256

جبری گمشدگیوں کے خوفناک زد سے متاثر شدہ خطہ بلوچستان، اس تکلیف دہ حقیقت سے دو چار ہے جس نے گذشتہ دو دہائیوں سے یہاں کے باسیوں کو پریشانی میں مبتلا کیا ہے۔ بلوچ قوم پرستوں سمیت سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے مسلسل پاکستانی خفیہ اداروں اور فورسز پر انگلیاں اٹھائی ہیں اور ان پر جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔

پاکستانی حکام اور حکومت کی جانب سے ان واقعات میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کے باوجود، ان حلقوں کی جانب سے پیش کردہ شواہد ایک الگ اور مظبوط بیانیہ کو ظاہر کرتی ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ (ٹی بی پی) نے ایک حالیہ تحقیقات میں رواں ماہ جولائی کے دو ہفتوں کے دوران جبری گمشدگیوں کا جائزہ لیا۔ ٹی بی پی تحقیقات سے درجہ ذیل باتیں سامنے آئیں:

سچائی کی تلاش

اس نازک صورتحال کے دوران ٹی بی پی نے سیریز کی شکل میں بلوچستان بھر کے مختلف علاقوں سے جبری گمشدگی کے واقعات کو باریکی سے دستاویز صورت میں مرتب کیا۔ جمع کیے گئے ثبوت اور شہادتیں سنگین صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں، جس میں 13 افراد مشتبہ حالات میں اٹھائے گئے ہیں۔ پاکستانی فورسز نے جون کے مہینے میں چار بلوچ لاپتہ افراد کو حراست میں لیا تھا، لیکن ان کی جبری گمشدگی کا اطلاع جولائی کے پہلے دو ہفتوں میں ملی تاہم اس مایوسی کے درمیان امید کی کرن بھی نظر آئی کیونکہ لاپتہ افراد میں سے تین افراد اپنے گھروں کو حفاظت لوٹ آئے، جو کہ تاریک منظر نامے میں راحت کی حیثیت رکھتا ہے۔

دل دہلانے والی دریافتیں:

افسردہ بات یہ ہے کہ لاپتہ افراد کی تلاش کا نتیجہ سب کے لیے خوشی کا باعث نہیں بن سکا۔ ان دو مشکل ہفتوں میں چار بے جان لاشیں برآمد ہوئیں، جس سے بلوچستان کے غم اور مایوسی میں مزید اضافہ ہوا۔

یہ انکشافات بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی حالت کو عیاں کرنے والی ہماری پچھلی ہفتہ وار رپورٹس پر مزید روشنی ڈالتے ہیں۔ جبری گمشدگیوں کے تسلسل کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت کی جانب سے ملوث ہونے سے مسلسل انکار، اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ مزید عالمی برادری کی توجہ مطلوب ہے۔

جس طرح بلوچستان کے لوگ جبری گمشدگیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی اذیت اور غیر یقینی صورتحال میں مبتلا ہیں، وہیں دوسری جانب دنیا اس خطے کو مزید امید افزا اور مساوی مستقبل کی امید کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔

مندرجہ ذیل علاقے جہاں جبری گمشدگیوں کی اطلاع ملی:

کیچ: 4
آواران: 3
ڈیرہ بگٹی: 2
گوادر: 1
خضدار: 1
کوئٹہ: 1
ڈیرہ غازی خان: 1

مزید برآں مندرجہ ذیل علاقوں سے چار لاشیں بھی برآمد ہوئیں

دالبندین: 2

نوشکی: 1

بارکھان: 1

جبری گمشدگی کے شکار افراد کی تفصیلات

دی بلوچستان پوسٹ نے درج ذیل افراد کی تفصیلات درج کی ہیں جنہیں مبینہ طور پر پاکستانی سیکورٹی فورسز نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اٹھایا تھا:

سالم بلوچ: 3 جولائی کو تربت سے جبری طور پر لاپتہ ۔ تاحال لاپتہ

اکرم بلوچ: 3 جولائی کو تربت سے جبری طور پر لاپتہ ۔ تاحال لاپتہ

قادر بکش بلوچ: 6 جولائی کو گوادر سے جبری طور پر لاپتہ۔ تاحال لاپتہ

فاروق بلوچ: 10 جولائی کو ضلع کیچ سے لاپتہ۔ تاحال لاپتہ

حکمت علی: 11 جولائی کو ضلع کیچ سے جبری طور پر لاپتہ۔ تاحال لاپتہ

ثناءاللہ: 11 جولائی کو ضلع خضدار سے جبری طور پر لاپتہ۔ تاحال لاپتہ

عبدلستار بلوچ: 11 جولائی کو ڈیرہ غازی خان سے جبری طور پر لاپتہ۔ رہا

روشن بگٹی: 13 جولائی کو ڈیرہ بگٹی سے جبری طور پر لاپتہ۔ تاحال لاپتہ

احمد بگٹی: 13 جولائی کو ڈیرہ بگٹی سے جبری طور پر لاپتہ۔ تاحال لاپتہ

اعظم بلوچ: 14 جولائی کو کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ۔ تاحال لاپتہ

داد بکش: 14 جولائی کو ضلع آواران سے جبری طور پر لاپتہ ۔ تاحال لاپتہ

دینار بلوچ: 14 جولائی کو آواران سے جبری طور پر لاپتہ ۔ تاحال لاپتہ

زباد بلوچ: 14 جولائی کو آواران سے جبری طور پر لاپتہ۔ تاحال لاپتہ

درج ذیل افراد کو مبینہ طور پر پاکستانی سیکورٹی فورسز نے جون کے مہینے میں اٹھایا تھا، لیکن ان کے اہل خانہ نے جولائی میں ان کی گمشدگی کی اطلاع دی۔

طارق بگٹی: 8 جون کو ڈیرہ بگٹی سے زبردستی لاپتہ کیا گیا اور 13 جولائی کو لاپتہ ہونے کی اطلاع دی گئی۔ تاحال لاپتہ

خان جان: 15 جون کو پنجگور سے زبردستی لاپتہ اور 8 جولائی کو لاپتہ ہونے کی اطلاع۔ تاحال لاپتہ

برکت: 15 جون کو پنجگور سے زبردستی لاپتہ کیا گیا اور 8 جولائی کو لاپتہ ہونے کی اطلاع دی گئی۔ تاحال لاپتہ

جمعہ خان: 18 جون کو ڈیرہ بگٹی سے زبردستی لاپتہ کیا گیا اور 13 جولائی کو لاپتہ ہونے کی اطلاع دی گئی۔ تاحال لاپتہ

جولائی کے پہلے دو ہفتوں میں چار لاشیں بھی ملی تھیں۔  دالبندین سے ملنے والی دو لاشوں میں سے ایک کی شناخت سلیمان کے نام سے ہوئی، جبکہ دوسرے کی شناخت تاحال نہ ہوسکی۔  اسی طرح بارکھان سے ملنے والی لاش کی شناخت اللہ بخش اور نوشکی سے ملنے والی لاش کی شناخت طاہر خان کے نام سے ہوئی ہے۔