‏نصیرآباد کو یونیورسٹی فراہم کیا جائے، ٹوئٹر پر کیمپئن

125

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام نصیرآباد میں تعلیمی اداروں کی کمی اور یونیورسٹی نا ہونے کے خلاف مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیمپئن چلائی گئی-

کیمپئن میں شامل طلباء نے نصیر آباد کو یونیورسٹی فراہم کرنے و تعلیمی زبوحالی، تعلیمی اداروں سے کرپشن ختم کرنے کا مطالبہ کیا-

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نصیرآباد جو ایک بہت بڑا خطہ ہے ابھی تک ایک یونیوسٹی سے محروم ہے، جس میں بیشتر طلباء انٹرمیڈیٹ کے بعد اپنی تعلیم ترک کر دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا بلوچستان کا بہت وسیع خطہ نصیرآباد ڈویژن کو یونیورسٹی سے محروم رکھنا ایک لمحہ فکریہ ہے۔ طلباء کی ہائر ایجوکیشن کے لئے ایک یونیورسٹی کا قیام ناگزیر ہے جس کے لئے حکومت کو جلد سے جلد عمل درآمد کرنی چاہیے۔

کیمپئن بلوچ طلباء و دیگر سیاسی سماجی تنظیموں کے ارکان نے بھی شرکت کرتے ہوئے #NaseerabadNeedsUniversity ہیشٹیگ کے ساتھ نصیرآباد کو یونیورسٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا-

بساک چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے لکھا کہ بلوچستان میں تعلیمی بحران نہ صرف مادی طور پہ موجود ہے بلکہ نفسیاتی حوالے سے بھی اس کے شدید اثرات موجود ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی ہے کہ ہم تعلیمی اداروں کے مستحق نہیں ہیں، ایک یونیورسٹی کے مطالبے کو اضافی مطالبہ کہنا اسی ذہنیت کی عکاسی ہے۔

ایڈوکیٹ اسرار بلوچ نے اوچ پاور کی تصویر کیساتھ لکھا؛ یہ روشنی اوچ پاور پلانٹ کی ہے اسکے زہریلے بادل ہروقت علاقائی باسیوں کے سرپر منڈلاتا تو رہتے ہیں پنجاب کو کئی ہزارمیگاواٹ بجلی بھی فراہم کر رہا ہے مجال ہیکہ اوچ پاور انتظامیہ و علاقائی ریاستی لاڈلے طلباء کے لیے کسی یونیورسٹی کے لیے کوئی اقدام اٹھائیں۔

زبیر بلوچ نے لکھا کہ تعلیم سے نصیرآباد میں علم و آگاہی آئے گی اور یہ علم و آگاہی ریاستی جاگیرداروں کا نصیرآباد سے خاتمہ کرے گی اسی خوف سے ریاست نصیرآباد کو تعلیم دینے سے خوفزدہ ہے۔

نوجوان سہیل نصیر نے لکھا کہ 21ویں صدی کے تناظر میں دیکھا جائے تو تعلیم اسوقت ایک ایسی ضروری امر ہے جیسے زندہ رہنے کیلئے پانی ضروری ہے، حکومت وقت کو نصیر آباد ریجن میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لانا ہوگا.

بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے کمپئن کے موقع پر کہا کہ نصیر آباد کے لیے سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ایک میڈیکل کالج بنانے کا وعدہ کیا تھا جس کے لیے زمین بھی مختص کی گئی تھی، موجودہ سندھ حکومت شاہ صاحب کا کیا ہوا وعدہ پورا کریں، مرکزی حکومت کو نصیر آباد میں ایگری کلچر قائم کرنا چاہیے۔

رکن بلوچستان اسمبلی و بلوچستان نیشنل پارٹی ثناء بلوچ نے کہا کہ رخشان یونیورسٹی خاران اور نصیر آباد یونیورسٹی کے قرداد و مطالبات اسمبلی سے منظور ہونے کے باوجود تا حال ان دو اہم علاقوں کے طلباء و طالبات کو اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھنا قومی نا انصافی ہے۔ حکومت دیگر غیر ضروری اخراجات کو کم کرکے ان 2 یونیورسٹی کے قیام کو یقینی بنائے۔