چینی شہریوں کی سکیورٹی اولین ترجیح ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر

431

پاکستانی ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس کے دوران پاکستانی فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں اگر کسی فوج کو کسی خاص سیاسی یا مذہبی سوچ کے لیے استعمال کیا گیا تو اس سے انتشار ہی پھیلا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام اور فوج دونوں یہ نہیں چاہیں گے کہ فوج کسی مخصوص سیاسی جماعت سے جڑے۔ ’سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ ہماری سوچ کو تقویت بخشیں۔ فوج اور سیاستدانوں کو غیر سیاسی رشتہ ہوتا ہے، اسے سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں ہو گا۔‘

ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کی گرفتاری سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ویٹرن (ریٹائرڈ فوجی) ہمارا اثاثہ ہیں۔ افواج پاکستان کے لیے ان کی قربانیاں ہیں۔ ویٹرن گروہ سیاسی تنظیمیں نہیں ہوتیں بلکہ فلاحی کام کرتی ہیں۔ انھیں سیاست نہیں کرنی چاہیے۔‘

جب ان سے موجودہ آرمی چیف کے پارلیمان میں دیے گئے بیان ’نئے، پرانے پاکستان کے بجائے ہمارے پاکستان کی بات کرنی چاہیے‘ کی بابت پوچھا گیا تو وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’آرمی چیف نے کہا ہے کہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز اتفاق رائے قائم کریں۔‘

کیا عمران خان سکیورٹی رسک بن چکے ہیں اور کیا عید کے بعد ملک میں ایمرجنسی یا مارشل لا لگنے جا رہا ہے؟ اس سوال پر جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر آئے روز فوجی حکام کے خلاف صبح شام نامی و بے نامی اکاؤنٹس سے پروپیگنڈا جاری ہے۔ اب آپ پر ہے کہ آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔‘

سوات میں سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکے سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آئی جی کے پی نے بریفنگ میں بتایا کہ سوات دھماکے کے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ دہشتگردی کا واقعہ نہیں مگر تفتیش کے بعد حقائق پتا چلیں گے۔ ’پہلی منزل پر مال خانے میں برآمد شدہ گولہ بارود رکھے گئے تھے۔ فوج نے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وہاں بہت سے گولہ بارود کو ڈفیوز کرنا ضروری ہے جس کے لیے ٹیمیں موجود ہیں۔ انکوائری سے صورتحال واضح ہوگی۔‘

دریں اثنا ان کا کہنا تھا کہ ’چینی شہریوں کی سکیورٹی اولین ترجیح ہے۔ فوج کے لیے یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ سی پیک کی سکیورٹی سے چینی حکام مطمئن ہیں۔‘

پنجاب حکومت کی جانب سے ہزاروں ایکڑ پر محیط زمین فوج کو دیے جانے سے متعلق سوال پر وہ کہتے ہیں کہ فوڈ سکیورٹی پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہے۔ ’باقی ترقی یافتہ ملکوں میں بھی حکومتوں نے فوج کو زراعت کے شعبے میں بہتری کے لیے استعمال کیا ہے۔ افواج پاکستان کیا بہتری لا سکتی ہیں، یہ فیصلہ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے کرنا ہے۔‘