جبری گمشدہ افراد کے خاندانوں کا المیہ – ٹی بی پی اداریہ

130

جبری گمشدہ افراد کے خاندانوں کا المیہ

ٹی بی پی اداریہ

جبری گمشدہ رشید بلوچ کی ماں پانچ سال سے اپنے بیٹے کی رہائی کی آس میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ علی اصغر بنگلزئی کی جبری گمشدگی کو دو دہائی مکمل ہوچکے ہیں، سمیع بلوچ کے والد نے بارہ سال اُس کا انتظار کیا اور اس دُنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔ ڈاکٹر اکبر مری کا بیٹا چودہ سال سے اپنے والد کے انتظار میں دن گزار رہا ہے ۔ علی حیدر نے اپنے بچپن کے چودہ سال پریس کلبوں کے سامنے احتجاج میں گزار دیئے لیکن والد کے لئے اُن کا انتظار ختم نہ ہوسکا۔ سمی اور مِہلب چودہ سال سے ڈاکٹر دین محمد کے واپسی کے لئے گھڑیاں گِن رہی میں اور توتک کا قلندرانی خاندان ایک دہائی سے اپنے پیاروں کی راہ تَک رہا ہے۔ یہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے ہزاروں خاندانوں میں سے چند ایک کی روداد ہے۔

اکتوبر دو ہزار نو کو جبری گمشدہ افراد کے خاندانوں نے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کی بنیاد رکھی کہ شاید مشترکہ جدوجہد سے انُ کے پیارے بازیاب ہونگے لیکن وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کو پانچ ہزار دن مکمل ہوچکے ہیں اور اب بھی بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا تسلسل جاری ہے اور بلوچ مائیں اپنے بیٹوں کی انتظار میں اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔

رشید بلوچ کی والدہ پانچ سالوں سے اپنے بیٹے کی رہائی کے لئے عدالتوں کے در کھٹکھٹاتی رہی اور خضدار و کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے احتجاجوں میں شامل ہو کر اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے آواز بلند کرتی رہی لیکن بیٹا بازیاب نہ ہوسکا اور جبری گمشدہ بیٹے کی جدائی کا درد لیے وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں۔

وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے روح رواں ماما قدیر بلوچ اپنے جوانسال بیٹے کی جبری گمشدگی کے بعد گولیوں سے چھلنی لاش وصول کرنے کے باجود پرامید ہیں کہ احتجاجی تحریک جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کا باعث بنے گا اور وہ کہتے ہیں کہ جب تَک ممکن ہوسکا وہ جبری گمشدہ افراد کے بازیابی کی تحریک کو جاری رکھیں گے۔

جبری گمشدگیوں سے بلوچستان میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، جس سے ہزاروں خاندان متاثر ہیں اور روز افزوں جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ بلوچستان اور پاکستان میں سیاسی پارٹیاں جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اس سنگین مسئلے پر آواز بلند کرتے ہیں لیکن حکومت میں آنے کے بعد خاموشی اختیار کرجاتے ہیں۔ بلوچستان میں جبری گمشدگی جیسے سنگین مسئلے کا سدباب نہیں کیا گیا تو یہاں کے حالات مزید ابتری کا شکار بنیں گے۔