ابدیت کی نظروں کے نیچے – برزکوہی

931

ابدیت کی نظروں کے نیچے

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کائنات کی ابتدا ایک بڑے دھماکے سے ہوا۔ اس کے بعد کائنات تیزی سے پھیلنا شروع ہوا- ایک ناقابل فہم حد تک یکسانیت کے ایک چھوٹے سے نقطے سے ناقابل فہم حد تک بڑے، اور مسلسل پھیلتے ہوئے، کائنات تک۔ بالآخر، یہ برہمانڈ مادے کی تشکیل کے لیے کافی ٹھنڈا ہوگیا، جس کے نتیجے میں آج کی کائنات، مادہ اور خلا کا مانوس دوہرا پن پیدا ہوگیا۔ یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا گیا، مجرد ستارے اور، بعد میں، سیاروں کی تشکیل ہوئی۔ کچھ سیاروں پر، کم از کم ایک جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں، زندگی بننا شروع ہوگئی، جو سادہ نامیاتی مالیکیولز پر مشتمل تھی۔ یہ مالیکیول آزاد ایٹموں کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے لگے۔ ایک مالیکیول کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی صرف دوسرے کے جمود یا انتقال سے مستعار لی گئی۔ اپنے آغاز سے ہی، زندگی ایک صفر کا کھیل تھا۔ اس لیے کچھ مالیکیول اپنے ارد گرد کے مالیکیولز میں کمزوری کا پتہ لگانے کے ماہر بن گئے۔ وہ مالیکیولر گوشت خور بن گئے، اپنی دریافت کردہ کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، مالیکیولوں کو توڑتے اور ان کے اجزاء کے ایٹموں کو استعمال کرتے۔ اور یہ عمل اربوں برسوں تک دھیرے دھیرے زیادہ پیچیدہ جاندار مالیکیول پیدا کرتا رہا۔

ایسا نہیں ہے کہ کائنات کا اس پوری صورتحال میں کوئی مداخلت تھا۔ یقیناً، چیزیں صرف اس میں ہوئیں، جہاں تک ہم جانتے ہیں، بغیر کسی مجموعی سمت یا کنٹرول کے۔ لیکن تقریباً چار ارب سال یا اس کے بعد، کچھ غیر متوقع اور متاثر کن ہوا: کائنات اپنے آپ سے سوالات کرنے کے قابل ہوگئی۔ کائنات کے چھوٹے چھوٹے حصے اپنے بارے میں، کائنات کے دوسرے حصوں اور یہاں تک کہ پوری کائنات کے بارے میں سوالات کرنے کے قابل ہو گئے۔ انسان، جو اس کائنات کا شعور ہے، انسان کے ذریعے سے ہی کائنات اپنا خود مشاھدہ کرنا شروع ہوا۔ اور اس پورے مشاھدے کی ابتدا سوال سے ہوئی۔

واقعہ اولین کے چار ارب سال بعد، ۲۶ اپریل ۲۰۲۲ کو سوالات کی چاشنی سے لبریز ایک لڑکی اپنا جواب پاکر، اس جواب کی تکمیل زندگی دھان کرکے کردیتی ہے۔ زیست و مرگ کی اٹکھلیوں سے ناواقف ششدرہ قحبہ قلم، بنجر فکر اور ابن حرص اس کھوج میں ہیں کہ شاری کیسے بنتے ہیں؟ شاری رازِ زندگی و بام شعور ہے، جو فطرت سے قریب ترین ہے، اس لیئے اسکا فکر سوال اور اس سوال کا جواب عمل ہے۔

بیسویں صدی کے جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر کے مطابق، انسان انفرادیت اور قدر کے لحاظ سے، اس حقیقت پر مشتمل ہے کہ انسان ایک ایسی ہستی ہے، جس کا وجود اس کے لیے ایک مسئلہ ہے: یعنی انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو سوالات پوچھ سکتی ہے، میں کیا ہوں؟’ اور ‘کیا میں اس کے قابل تھا؟’ یہ ہماری عقلیت ہے، جس کا ایک وسیع مفہوم ہے، جو ہمیں دوسرے جانوروں سے بہتر بناتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا واقعی مشکل ہے کہ اس لفظ کا کیا مطلب ہے۔ انسان پیچیدہ منطقی یا تصوراتی مسائل کے ذریعے اپنے طریقے سے کام کرنے میں بہتر ہے- لیکن ایک جانور دوڑنے میں بہتر ہے۔ ان میں سے کون سی مہارت بہتر ہے؟

لفظ ‘بہتر’ کو سمجھنے کا ایک طریقہ، شاید سب سے واضح طریقہ ‘زیادہ مفید’ کا ہوگا۔ لیکن اگر ایسا ہے تو، ‘بہتر’ لازمی طور پر سوال میں موجود مخلوق کا رشتہ دار ہے۔ جو چیز میرے لیے مفید ہے وہ ضروری نہیں کہ کسی عقلیت سے عاری جانور کے لیے بھی مفید ہو۔ اس کے برعکس ایک جانور کے لیے یہ مفید ہے کہ وہ تیزی سے دوڑ سکے اور سمت بدل سکے۔ اس طرح، کم از کم اپنے آبائی گھر میں، وہ کھانے کے لیے درکار چیزیں پکڑ سکے گا۔ تاہم، کسی انسان کیلئے ایسی مہارتیں بہت کم مفید ہیں۔

ہر جانور اپنے ساتھ زندگی کی اپنی شکل لاتا ہے، اور کون سی مہارتیں بہتر یا زیادہ کارآمد ہیں، وہ زندگی کی اس شکل سے متعلق ہیں۔

افلاطون کی طرف سے ابھاری گئی فکر کی ایک طویل روایت کے مطابق، عقلیت انسانی فضیلت ہے۔ لیکن یہ صرف اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ فضیلت کا خیال بھی جانوروں کی طرز زندگی سے متعلق ہے۔

چیتا کے لیے فضیلت رفتار پر مشتمل ہے، کیونکہ رفتار وہ چیز ہے جس میں چیتا مہارت رکھتا ہے۔ بھیڑیا کے لیے کمال، دوسری چیزوں کے علاوہ، ایک خاص قسم کی برداشت میں ہے جو اسے اپنے شکار کے تعاقب میں بیس میل تک دوڑا سکتا ہے۔ کیا بہترین ہے، اس پر منحصر ہے کہ آپ کیا ہیں۔

عقلیت رفتار یا برداشت سے بہتر ہے: لیکن ہم اس دعوے کو کس بنیاد پر درست قرار دے سکتے ہیں؟ بہتر کا کوئی معروضی احساس نہیں ہے’ جو ہمیں ایسا کرنے کی اجازت دے گا۔ ایک بار جب ہم یہ کہتے ہیں، لفظ ‘بہتر’ اپنا معنی کھو دیتا ہے۔

اسی افضلیت کو لیکر شاری کے کردار کو دیکھیں، شاید آپ شاری کو اچھی ماں نا کہہ سکیں، لیکن فطرت کے اس روش میں دو بچوں کیلئے ایک اچھی ماں ہونا افضل ہے، یا ایسا کردار نبھانا جو۳۰ ملین کی ایک قوم کا آپکو ماں ہونے کا حق ادا کردے۔

جہاں بھی کوئی جہدکار یا لیڈر اپنے نظریہ، فکر و مقصد اور عمل کے ساتھ اگر مکمل انصاف کرتا ہے، تو وہ اپنے زاتی زندگی اور خاندان کے ساتھ مکمل انصاف نہیں کرسکے گا کیونکہ انقلابی جنگ کے اپنے مستند و طے شدہ اصول ہوتے ہیں۔ جو عام زندگی بسر کرنے کے تقاضات اور اصولوں سے متضاد ہوتے ہیں۔ انکا ٹکراو ہوتا ہے، دونوں کو ایک ساتھ انصاف کے تقاضوں سے چلانا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔

شاری ایک ماں ہوتے ہوئے، میرو و ماھو کے ساتھ ممتاء جیسا انصاف نہیں کرپاتا، ماھو و میرو کا بحثیت ماں، حق ادا نہیں کرتا۔ بحثیت ایک بیوی کے ڈاکٹر کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتی۔ لیکن شاری اپنے بلوچستان، اپنی فکر، اپنی تنظیم اور اپنے کردار کے ساتھ مکمل انصاف کرکے پورا پورا حق ادا کردیتی ہے۔

قرون وسطی کے فلسفی ایک جملہ بہت استعمال کرتے تھے، جو میرے خیال میں خوبصورت اور اہم دونوں ہے۔ “ابدیت کی نظروں کے نیچے۔” آپ خود کو کائنات کی تاروں بھری سیاہی میں دوسروں کے درمیان صرف ایک دھبے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ابدیت کی نظروں کے نیچے، ہم انسان دوسروں کے درمیان محض ایک نوع ہیں- ایک ایسی نوع جو بہت زیادہ عرصے سے آس پاس نہیں رہا ہے، اور زیادہ دیر تک رہنے کا بھی کوئی واضح اشارہ موجود نہیں ہے۔ ابدیت کی نگاہیں پیچیدہ تصوراتی مسائل کے ذریعے اپنے طریقے سے کام کرنے کی میری صلاحیت کی کیا پرواہ کرتی ہیں؟

اب شاری کا کردار، قربانی اور شعار “ابدیت کی نظروں کے نیچے” عظیم ہے، جو بشری میلانات و الفاظ کے گرفت سے باہر ہے۔ جو ابد کو عازم سفر ہوئے، انکے کردار کا احاطہ فانی پیمانوں کی ڈھب و حجت کے دائرے سے باہر ہے۔ انکا دیا ہوا سبق صرف ایثار و قربانی نہیں بلکہ یہ عظیم گوشمالی ہے کہ محبت، بلدان و ایثار کی ید طولیٰ ممتا و اہلخانہ نہیں بلکہ وہ فکر ہے جو سوالات سے لبریز ہے۔ صرف یہی ہی تاریخ کے تسلسل میں ابدیت کی نظروں کے نیچے کوئی معنی رکھے گی اور اسی بات کو سمجھنا ہی شعور کی وہ انتہا ہے، جو بشر کی نہیں ہستی کا شیوہ ہے۔

فلسفی جان پاسمور کہتے ہیں کہ فکر دراصل جزبات کی ایک دوسرے سے تعلق کا نام ہے۔ جذبات کی جدوجہد سے باہر نکل کر فتح پانے کے لیے فلسفہ اس جدوجہد میں ایک ہتھیار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اگر ہم زندگی کا مطلب سمجھیں تو جذبات زندگی ہیں اور زندگی جذبات ہیں۔ ان دونوں کو الگ تھلگ کر دیں، تو دونوں ہی بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح نظریہ و علم اور عمل کے حوالے سے فلسفی جان ڈیوی علم کی کامیاب عمل کے طور پر تعریف کرتا ہے، ڈیوی کہتا ہے کہ نظریئے کو عمل سے سختی کے ساتھ الگ کرنا دراصل دونوں کے لیے انتہائی نقصاندہ ہے۔ وہ اس قول کو درست تسلیم نہیں کرتا کہ فکر، عمل کے لیے تحفظ ہوتی ہے بلکہ اس کے نزدیک فکر بذات خود ایک عمل ہے یعنی تجربہ کرنے کا عمل۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس عمل کے زرائع سے ہمارا تجربہ زیادہ وسیع ہوجاتا ہے۔

وہ مزید کہتا ہے کہ کسی فلسفی کی اہم غلطی یہ سوچ لینا ہوتا ہے کہ تجربے کے بارے میں اس کے خیالات بھی بذات خود تجربہ ہیں۔

علم، نظریہ، عمل، تجربہ، جذبات، احساسات، زندگی اور موت یہ سوالیہ علامات ہیں۔ غیرفلسفیانہ علمی تحقیق کی بنیاد پر ہم جب ان موضوعات کو ڈھونڈتے ہیں اور اپنی غیر فلسفیانہ سوچ و اور نقطہ نظر کے تحت ایک نتیجے کے مقام تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر اسی کو من و عن جواب یا حتمی نتیجہ مانتے ہیں اور اختیار کرتے ہیں، جو پھر سراسر دقیانوسی اور روایتی ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ان اشیاء کا وجود و تعریف اپنے اندر خود وجود رکھتا ہے، اگر روایتی و عموعی طرز سے تحقیق و جستجو کرنا ہو پھر نتیجہ و تعریف ہی عموعی اور روایتی ہوگی۔

یہیں سے آپ اس فرق کو سمجھیں، سوال ابتدا ہے، جس کا ماخذ شعور و فکر ہے۔ ہم میں سے کئی ایک فکر کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ اس فکر و شعور سے کیسا عمل اور کتنا عمل پھوٹے۔ شاری نے فکر کیلئے عمل کا جواب، خود کو اپنی چناو کے زمان و مکاں میں قربان ہونے میں پایا۔ لیکن سب کا جواب یہ کیوں نہیں؟ میں اکثر خود سے سوال کرتا ہوں کہ کیا وہ فکر اتنا بلند پایہ تھا کہ ہر کسی کی اس تک پہنچ نہیں یا فکر کو عمل میں کون کیسے تشریح کرتا ہے، یہی افضلیت کی بنیاد ہے؟

جب تک آپ بے مقصد زندگی بسر کررہے ہو، یعنی زندہ لاش ہو اور بغیر موت کے مرے ہوئے ہو اور جو زندہ رہنے کے لیے زندگی کو قربان کردیتے ہیں، ان پر آپ کو حیرانگی و پریشانی ہوتی ہو، تو پھرآپ یہ جان لینا ابھی تک آپ اصل زندگی سے نا واقف ہیں۔

آپ اس فرق کو سمجھنے اور شعور رکھنے کے اہل نہیں ہیں کہ صرف زندگی ہی زندگی نہیں ہے اور موت کو فناء سمجھ کر خوف کا شکار رہنا مزید زندہ رہنے کی خواہش رکھنا، یہ خود اپنے آپ میں خود کشی کی ایک قسم ہے، آپ مرکر بھی جو زندگی گزار رہے ہیں، وہ ایک بے مرگ موت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

دوسری طرف کامیابی، امید اور حوصلے کی انتہاء بن کر اپنی جان قربان کرنا، بہادری و شعور کی انتہاء ہوتی ہے بلکہ جب کچھ کرنے کے لیے ہر قدم پر موت کا سامنا ہو، موت کو اصل زندگی سمجھ کر آگے بڑھنا اصل زندگی اور بامقصد زندگی کا شعور اور علم و تجربہ ہے۔

زندہ تو صرف وہ ہیں، جو اس پیام کو پہنچانے میں عدیم الفرصت ہیں، جس کا پہنچنا ضروری ہے۔ زندہ تو صرف وہ ہیں، جن کے بطن فی الواقع اور تافتہ و تاباں زرہ بکتروں کے بوجھ تلے مسلے جارہے ہیں۔ زندہ تو صرف وہ ہیں، جو اس خیابان پر عازم سفر ہوتے ہیں، جہاں چلنے کی کسی میں حجت نہیں۔ زندہ تو صرف وہ ہیں، جو موت کے دوش سے دوش ملا کر ٹہلتے ہیں، جہاں دوت و روح خبیث دونوں اسکے ہر قدم کی آہٹ سے باخبر ہیں۔ زندہ تو صرف وہ ہیں، جن کے کتف و شانوں پر وقت کا بوجھ ہے، اور وہ یہ بوجھ اٹھائے، طوفانی ریلوں و بھیڑیوں کی چنگھاڑ کو پچھاڑتے ہوئے، تمہارے اور میرے لیئے خواب بُنتے ہیں، زندہ تو صرف ابدیت کی نظروں کے نیچے کامران، کھکھلاتی ہوئی شاری ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں