ہائرارکی، اقدار اور انسانی سماج ۔ عبدالہادی بلوچ

262

ہائرارکی، اقدار اور انسانی سماج 

تحریر: عبدالہادی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسان کی ارتقاء یا ظہور کے متعلق مختلف بیانات اور تحقیقات دیکھنے کو ملتے ہیں، کہ انسان کا ظہور کیسے ہوا یا وہ کیسے پیدا ہوا یا کیا گیا ہے۔ ان بیانات اور تحقیقات کو جب ہم دیکھتے ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ کس طرح انسانی ارتقاء ہوا ہے تو ہمارے ذہن میں یہ بات ابھرتا ہے کہ ابتدائی مراحل میں انسان ضرور انتشار کی حالت میں رہا ہوگا۔ مادی حقائق یا مادی دنیا کے علاوہ اس وقت اور کوئی چیز وجود نہیں رکھتا تھا۔ جب علمی و شعوری ارتقاء ہوا تو اس نے فرضی و تصوراتی رجحانات پیدا کرنا شروع کیا۔ آج ہمیں کئی قسم کے تصوراتی حقائق یا رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں جو انسان کی ارتقاء میں مختلف مراحل و زمانوں میں ظہور پذیر ہوتے آئے ہیں۔ وہ تصورات آج اقدار، معیارات، قوانین و ضوابط جیسے حقائق اور رجحانات کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ایسے حقائق جو بیشتر موضوعی ہوتے ہیں، نے معاشرے جیسی حقیقت کو پیدا کیا اور اس کو اس طرح سے ترتیب دیا جس طرح آج اس کا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج جب ہم معاشرے کا تصور دیکھتے ہیں تو یہ تصور انسانی ارتقاء میں جنم لینے والی ایک فرضی و تصوراتی حقیقت ہے۔

در اصل، فلسفی کہتے ہیں کہ جو چیز مادی شکل میں نہ ہو لیکن وجود رکھتی ہو وہ تصوراتی یا موضوعی (Subjective) حقیقت ہے جو انسان نے ہی موضوعی طور پر پیدا کی ہے۔ اس طرح انسانی معاشرے میں آج بہت سے، مختلف قسم کے رجحانات وجود رکھتی ہیں جو موضوعی یا تصوراتی ہوتے ہیں اور ہمیں وہ معروضی (Objective) حقائق لگ رہے ہوتے ہیں در حقیقت ان کی بنیاد انسانوں نے ہی تصور کیا ہے۔ ایک وقت رہا ہوگا جو وہ وجود نہیں رکھتے تھے اور پھر ان کو تصور کر کے ان کی بنیاد رکھی گئیں ہیں۔ ایسے موضوعی حقائق میں سے ایک انسانوں میں درجہِ بندی (Hierarchy) کا نظام ہے جس کے پیش نظر لوگوں کو گروہ میں تقسیم کیا گیا ہے جس سے طبقاتی تقسیم جیسی حقیقت پیدا ہوئی ہے۔ وہ طبقاتی تقسیم یا نظام جس کی کارل مارکس تنقید کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ انسانی ارتقاء میں انسانوں ہی سے پیدا کردہ ایک تصوراتی حقیقت ہے جس پر یہ تصور دیتے ہوئے باور کرایا گیا کہ ایک بہتر زندگی گزارنے یا بہتر معاشرہ ترتیب دینے کےلئے لوگوں میں درجہِ بندی کی ضرورت تھا جس میں حیثیت اور اختیار کے اعتبار سے لوگوں کے بالاتر اور کمتر سطح ہوتے تھے، لیکن اس تصور کے معاشرے میں سرایت کرنے کے بعد اس سماجی و معاشرتی ترتیب نے بالاتر سطح کے انسانوں کو زیادہ فائدہ و استحقاق دیا اور نچلے سطح کے انسان امتیازی سلوک اور دباؤ کا شکار رہیں۔ اب انہی درجہِ بندی کے نظام میں دئیے گئے ضابطے آگے چل کر معیارات و اقدار بن گئے جو آج انسانی سماج میں طبقاتی تقسیم کی شکل میں ملتا ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق، برابری و مساوات، آزادی، غلامی، نسلی تفریق وغیرہ جیسے حقائق اسی درجہِ بندی کے ردعمل سے جنم لینے والے موضوعی حقائق ہیں جو آج معروضی حقیقت یا اقدار کے طور پر وجود رکھتے ہیں۔

انسانی تاریخ میں لوگوں کی یہی کوشش رہی ہے کہ ایسے موضوعی و تصوراتی رجحانات یا حقائق کو معروضی حقائق باور کرایا جائے، اسی لیے بعض لوگ اب بھی آزاد اور غلام یا طبقاتی تقسیم کو معروضی یا قدرتی حقیقت مانتے ہیں۔ ان کے علاؤہ، مزاہب جو کہ مزکورہ بالا خیالات کے پیش نظر خود ایک موضوعی و تصوراتی حقیقت ہے، اس پر اپنے موقف رکھتے ہیں کہ غلامیت یا انسان کی نسلی امتیاز خدا کی طرف سے عطا کردہ ہے۔ حالانکہ اب تک کوئی سائنسی تحقیق نہیں ہوئی ہے جس کے مطابق آزاد اور غلام یا بالاتر اور کمتر انسان میں حیاتیاتی امتیاز ہو۔ یہ انسان کی اپنی بنائی ہوئی موضوعی اقدار، معیارات اور قوانین و ضوابط ہیں جس نے طبقاتی تقسیم اور نسلی امتیاز پیدا کیا ہے۔ انسان میں محض چند معروضی حیاتیاتی امتیاز جیسے پوست کا رنگ، بالوں کا قسم، پایا جاتا ہے، ورنہ عقلی و ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے کوئی امتیازی ثبوت نہیں۔

مزید برآں، اسی موضوعی و تصوراتی رجحانات اور حقائق کے ظہور کے تسلسل کے ساتھ ساتھ انسانوں میں سے ایک طبقہ نے سماج اور معاشرے میں طبقاتی تقسیم یا نسلی امتیاز جیسے اقدار اور معیارات کو معروضی حقیقت بنانے کی کوشش کیا تا کہ وہ ایک مخصوص اور بالاتر طبقہ میں رہ کر دوسرے نچلے طبقوں پر حکمرانی کر سکے اور ان کا استحصال کر سکے۔ انسانی ارتقاء میں ان جیسے بہت سے اقدار معیارات اور اصول و قواعد پیدا کیے گئے ہیں جو کہ مجموعی طور پر انسان کےلئے مفید ہیں، مثلاً انصاف، برابری، آزادی، سماجی سالمیت اور زمہ داری وغیرہ۔ ان جیسے موضوعی حقائق کو انسانی سماج میں سماجی اقدار اور ضابطے کے طور پر سرایت کرا کے یہ باور کرایا گیا ہے کہ ایسے معیارات اور اقدار اس کی بہتری کےلئے ہیں۔ گویا یہ واقعی بہتر معاشرے کےلئے معاون ہوتے ہیں لیکن، دوسری طرف طبقاتی رجحان جیسے غلام، معمولی انسان، امراء وغیرہ بھی انسانی پیدا کردہ اقدار بنے ہوئے ہیں۔ اور بعض لوگ جو عقیدت پسندی میں اتنے جکڑے ہوتے ہیں کہ انہیں ایسے موضوعی حقائق اور رجحانات معروضی اور قدرتی لگتے ہیں۔

لہذا، وہ موضوعی حقائق اور رجحانات جو آج سماجی و معاشرتی اور سیاسی اقدار اور معیارات کے طور پر وجود رکھتیں ہیں جو کہ انسان کے اچھے کےلئے، اس کے اجتماعی مفاد، مثلاً ایک بہتر معاشرہ یا زندگی کےلئے ہوتے ہیں ان پر کوئی اعتراض اور تنقید پیدا ہوا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف منفی ردعمل ابھرا ہے۔ لیکن اس کے برعکس وہ حقائق رجحانات یا اقدار جو طبقاتی تقسیم، غلامیت، حکمرانی، سامراجیت و استعماریت کے شکل میں ملتیں ہیں ان سے جنگ لڑائی مزاحمت اور احتجاج جیسے منفی ردعمل پیدا ہوا ہے کیونکہ ایسے تصوراتی و موضوعی حقائق انسان کے مفاد میں نہیں ہیں بلکہ ان سے ہمیشہ ایک طبقے کو فائدہ پہنچا ہے،  باقی انسانوں کو ہمیشہ نقصان ہوا ہے بلکہ ان کے وجود کو خطرہ لاحق رہا ہے۔ ان کا استحصال ہوتا آیا ہے۔

کارل مارکس کی بھی اپنے نظریہ جدلیاتی مادیت (Dialectical Materialism ) سے مراد یہی ہے کہ وہ  حقیقت جس میں چیزیں دو متضاد عناصر کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی سے مسلسل تبدیلی کے عمل میں ہیں، جس سے مراد دنیا میں تاریخی اور سیاسی واقعات و حالات سماجی قوتوں یا عناصر کے درمیان تصادم کا نتیجہ ہیں۔

مزکورہ بالا خیالات کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ردعمل مثلاً مزاحمت، جنگ، لڑائی، تصادم وغیرہ معروضی یا قدرتی اقدار یا طرز کے ہیں جو ان انسانوں کے ان اقدار اور رویے کے خلاف کہ وہ اپنے خاص مقصد کےلئے اپناتے ہیں جیسے کہ دوسرے طبقوں کا استحصال، ان کا وجود مٹانا وغیرہ۔  وہ ردعمل یقیناً کسی ناجائز، نامناسب، متضاد صورتحال کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں جو سماج و معاشرے کو اپنے جائز اقدار، معیار یا ان تصوراتی رجحانات جو ان کے فائدے اور بہتری کےلئے ہوتے ہیں کے موافق ترتیب دینے کےلئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں