8 مارچ شارل کے نام ۔ اے ایچ بلوچ

394

8 مارچ شارل کے نام 

تحریر: اے ایچ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی سماج میں بہت سے اقدار پیدا کیے گئے ہیں جن کو انسانوں نے ہی اپنے فائدے یا زندگی میں مختلف فرضی مقاصد کے لئے پیدا کیے ہیں۔ ان میں ایک جنس و صنف کی درجہ بندی ہے۔

جس طرح انسانی تاریخ میں نسلی تفریق کو ایک قدر کے طور پر معاشرے میں نشوونما دیا گیا ہے جس میں نسلی تقسیم مثلاً سفید فام اور سیاہ فام کی ایک فرضی و تصوراتی حقیقت قائم رہتا اور اس میں سیاہ فام جن کو غلام تصور کیا جاتا تھا وہ بدترین امتیازی سلوک کا شکار بنایا گیا تھا اور سفید فام اپنی بالاتر نسلی قدر، جو محض فرضی و تصوراتی بنیاد پر تھی، کے بدولت وسائل اور زندگی کے بہتر معیارات سے لطف اندوز تھا۔ اسی طرح صنف کی درجہ بندی کا بھی تصور پیدا کیا گیا جس کے تحت مرد کو معاشرے میں اعلیٰ حیثیت و اہمیت حاصل رہا اور عورت کو کمزور، کمتر اور اپنی بدنصیبی قرار دے کر نہ صرف مرد نے اس کا بدترین استحصال کیا بلکہ بعض معاشروں میں والدین نے اپنی جنم لینے والی لڑکیوں کو قتل کردیا تاکہ اگلے بار میں لڑکا پیدا ہو۔ ایسے خیالات اور تصورات انسانی سماج میں جڑ پکڑتے گئے جو انسانی اقدار مانے جاتے تھے۔ آج بھی کئی معاشروں میں عورتوں کو مردوں کے جائیداد تصور کیے جاتے ہیں، خاص طور پر باپ، بھائیوں اور شوہر کے، اور وہ جیسے چاہتے ہیں انہیں ویسے قابو کیے ہوئے ہیں۔ یہ اسی درجہ بندی کی حقیقت کی مرہون منت ہے جس میں عورت کو کمزور اور کمتر درجہ دیا گیا ہے اور مرد کی طرف سے برے برتاؤ کا شکار رہی ہے۔

حالانکہ مرد اور عورت کے درمیان محض چند مادی تفاوت کے جنہیں حیاتیاتی یا قدرتی قوانین سے منسوب کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان قوانین سے جنم لینے والے حقائق ہیں، اور کوئی فکری، ذہنی و عقلی، اور سیاسی و سماجی اور اخلاقی میدان میں ایسی امتیازی حقیقت نہیں۔

یول نوہ ہراری (Yuval Noah Harari) اپنی کتاب Sapiens میں عورت کے جنس کے بارے میں مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ “500 قبل مسیح میں اتنز Athens میں وہ فرد جو بچہ دانی رکھتا، چونکہ بچہ دانی رکھنا صرف عورت کی خصوصیت ہے تو وہ یقیناً عورتوں کے طرف مخاطب تھے، انہیں کوئی آذاد قانونی حیثیت نہیں ملتی تھی۔ اور ان کےلئے ممنوع تھا کہ وہ کسی بھی سماجی خدمات میں شرکت کریں، مثلاً کسی عوامی اسمبلی میں حصّہ نہیں لے سکتے، یا جج نہیں بن سکتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ قدیم اتینینز کو لگتا تھا کہ عورت حیاتیاتی طور پر ایسے پیشوں میں اہل نہیں ہے، لیکن جدید اتینینز نے اس خیال و تصور کی مخالفت کی ہے۔ آج کی اتینز میں عورتیں ووٹ و رائے دیتے ہیں۔ انہیں عوامی دفتروں میں تعینات کیا جاتا ہے۔ تقریریں کرتے ہیں، جیولری سے لے کر عمارتوں اور سافٹویئر تک ڈیزائن کرتے ہیں۔ ان کی بچہ دانی یا کوئی بھی حیاتیاتی فرق ان کی کسی بھی ایسی چیز کے درمیان رکاوٹ نہیں نظر آتی، بلکہ انہیں اس طرح کامیابی سے انجام دے رہے ہیں جس طرح مرد دیتے ہیں۔”

لہذا، مرد اور عورت کے درمیان کسی بھی میدان اور اعتبار سے کوئی تفاوت نہیں۔ اگر ان میں تفریق و امتیاز ڈالا جاتا ہے تو وہ محض اسی درجہ بندی کے تصور کی پیداوار ہوگی جو انسان نے خود بنیادی طور پر سماج میں اپنی برتری جتانے کےلئے اس کا تصور دیا ہے۔

تاہم، آج کل عورت نے بھی ان تصورات و خیالات کہ ان کے انسانی اوصاف کے وجود کو مسترد کرتے آئے ہیں جنہیں وہ مرد کے اوصاف کے مقابلے میں برابر سمجھتے ہیں، کو کاؤنٹر کرنے کےلئے عورت مارچ کا تصور پیدا کیا ہے جس کے سہارے وہ خود کو، اپنی صلاحیتوں اور اوصاف کو منوانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر ان خطوں میں جہاں عورتوں کو اب بھی یہی احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ کمتر، کمزور، اور مرد کے قابو میں ہیں۔ چنانچہ ان خطوں میں عورتیں مختلف طرز و طریقِ میں مزاحمت، احتجاج اور جد و جہد کرتے نظر آئیں گے جن کی وہ  طرزِ جہد و کوشش شاید اب بھی، ہم کہہ سکتے ہیں کہ مرد کے اوصاف و جواہر کے مقابلے میں پورا نہیں اتر رہا۔ لیکن کچھ ایسے عورت شخصیات ملیں گے جدید تاریخ میں جنہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ (عورت) ہر اعتبار اور ہر میدان میں مرد کے برابر اور مقابلے میں ہے۔ جی ہاں! وہ شاری بلوچ (شارل) جیسے بہادر سپاہی ہیں جن پر بہادر لفظ بھی یقیناً کم پڑ جاتا ہے۔

شارل جیسے عورتوں کے کارنامے اور حوصلے و ہمت جب دیکھنے کو ملتا ہے تو یہ شک و شبہ دور ہوتی ہے کہ عورت کمزور اور نالائق ہے۔ شارل جیسے عورتوں نے اس تصور کو کہ عورت کو کمتر، کمزور، نالائق اور ناقابل سمجھتا تھا جڑ سے مٹانے اور اسے غلط ثابت کرنے کےلئے کردار ادا کیا ہے۔ اپنے قومی مقصد اور اجتماعی کاز کےلئے شاری بلوچ بطور ایک عورت نے وہ کر دکھایا جو آج دوسرے مرد نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ جو عورت کر سکتا ہے وہ سارے مرد نہیں کر پاتے اور نہ ہی سارے مردوں میں وہ حوصلہ و ہمت ہے۔ پس، عورت کے کمتر، کمزور اور نالائق و نااہل ہونے کے متعلق اور کوئی متضاد جواز اور استدلال نہیں بچتا کیونکہ شارل جیسوں نے ثابت کر دیا ہے کہ جو مرد کر سکتا ہے وہ عورت وہ بھی کر سکتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں