جامعہ تربت کی فیسوں میں اضافہ طلبہ کو تعلیم سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔ ایس ایس ایف

225

سیو اسٹوڈنٹس فیوچر کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ یونیورسٹی آف تربت کی جانب سے یکدم ٹیوشن اور ٹرانسپورٹ فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کرنا تشویشناک ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بیش قیمت ساحل و وسائل کے مالک صوبے میں پہلے سے ہی تعلیمی صورتحال ابتری کا شکار ہے، تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو موجود ہیں ان میں بھی طلبہ معیاری تعلیم و بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، جامعہ انتظامیہ سمیت محکمہ تعلیم بلوچستان اور صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جدید سہولیات سے آراستہ تعلیمی ادارے اور معیاری تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنائیں نہ کہ متوسط گھرانوں کے طلباء و طالبات پر بھاری فیسوں کا بوجھ ڈال کر انہیں اداروں سے خیر آباد کہنے پر مجبور کریں۔

انہوں نے کہا کہ ذمہ داران کا فرض بنتا ہے کہ بلوچستان کی تعلیمی صورتحال کے پیش نظر صوبے کے وسائل بروئے کار لائیں اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے توسط سے صوبے میں جدید سہولیات سے آراستہ معیاری تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کا اجراء کریں مگر یہاں الٹی گنگا کے مصداق پہلے سے موجود برائے نام خستہ حال کیمپسز کو بند کرکے، نئے منظور شدہ تعلیمی اداروں کے کاموں کو سست روی کا شکار کرکے اور اپنی مدد آپ بلوچ طلبہ کی جانب سے منعقد علمی سرگرمیوں کو سبوتاژ کرکے بلوچ طلبہ کو سوچے سمجھے منصوبے کی بناء پر تعلیم سے دور کیا جارہا ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ہم جامعہ تربت انتظامیہ سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرکے اسکو واپس لے اور صوبائی حکومت و ایچ ای سی سے اس معاملے میں گفت و شنید کرکے بلوچستان کے تعلیمی بجٹ بڑھانے اور اسکالرشپس کے اجراء کو یقینی بنائے اور ہم وزیر تعلیم بلوچستان، صوبائی حکومت و ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ سکندر یونیورسٹی خضدار، گرلز پولی ٹیکنیکل کالج، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کیمپس خضدار، نرسنگ کالج خضدار، جھالاوان میڈیکل کالج و دیگر بلوچستان میں سالوں سے رکاوٹ کا سبب بننے والے اداروں کی فوری تکمیل کرکے بلوچستان کی تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔