بلوچستان کی پسماندگی اور اسکی زبوں حالی پر ایک نظر ۔ عظیم جان

422

بلوچستان کی پسماندگی اور اسکی زبوں حالی پر ایک نظر

تحریر: عظیم جان

دی بلوچستان پوسٹ 

 اگر دیکھا جائے بلوچستان دنیا کے نقشے میں ایک امیر ترین خطہ مانا جاتا ہے۔ دولت سے مالامال اس سر زمین کے سینے میں سونا، چاندی، گیس غرض کہ دنیا کی تمام معدنیات وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان ہیرے سونے سے سجائی ہوئی ایک خوبصورت دلہن کی مانند ہے۔ جس پر ساری دنیا کی نظر لگی ہوئی ہے۔ ہر ایک اس کو اپنا بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر بدقسمتی سے جو لوگ اس پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ انکو تو صرف اسکی دولت سے واسطہ ہیں وجود سے نہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت ہمارے حکمران ایک ٹھیکیدار اور سوداگر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جنہوں نے ہر بار اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے دولت سے مالامال اس سر زمین کو چند سکھوں کے عوض کسی اور کے ہاتھوں سودا کئے ہیں۔ حال ہی میں ریکوڈک کی قرارداد پر دستخط کرنا اور اس کا سودا لگانا بلوچستان کی موجودہ گورنمنٹ کی نالائقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان حکمرانوں کو کیا پتہ ہیں کہ ہیرے سونے پیدا کرنے والا اس سر زمیں کی کیا قدر و قیمت ہوتی ہے۔ اگر ان حکمرانوں کو بلوچستان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا؟ تو آج بلوچستان دیوالیہ نہ ہوتا۔

اگر یہ ٹھیکیدار اور سوداگر نہ ہوتے تو ریکوڈک کا سودا نہ کرتے۔ اگر بلوچستان حکمران نااہل نہ ہوتے تو بلوچستان کے ساحل وسائل کو وفاق کے سپرد نہ کرتے۔ ریکوڈک بلوچستان کے عوام کی امانت ہے یہ انکی ملکیت ہے۔ کسی کو بلوچستان کی ساحل وسائل اور ریکوڈک بھیجنے کا کوئی حق نہیں۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ گونگا بہرہ حکمران کے نالائقی کی وجہ سے ریکوڈک دوسروں کے ہاتھوں بھک چکی ہے۔ وہ اپنے کرسی بچانے کی خاطر اپنے آقاؤں کے سامنے سر جھکا کر لب کشائی کرنے کی جرات نہیں کرتے ہیں۔ کیونکہ نالائق اور ڈرپوک جتنا ہائی پوزیشن منصب پر ہو مگر وہ اپنے آقاؤں کے سامنے بولنے کی جرات نہیں کرتی۔ ویسے ہی انکو بلوچستان کی ترقی اور ساحل وسائل سے کوئی غرض نہیں انکو تو صرف پیسے بٹوارنے کی فکر ہیں۔ یہی وجہ کہ آج بلوچستان مالی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے، خزانے خالی پڑی ہوئی ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق اس وقت بلوچستان کی مجموعی بجٹ سے صرف 4 کروڑ 45 لاکھ خزانہ میں پڑی ہوئی ہے۔ جبکہ باقی سب پیسے کرپشن اور خرد برد کی نظر ہو چکی ہے۔ بلوچستان کی تاریخ میں یہ پہلی گورنمنٹ ہے کہ مالی مشکلات سے اس قدر دو چار ہے کہ ملازمین کو تنخواہیں دینے میں سکت نہیں رکھتی ہے۔ حیرانی بات یہ ہے کہ اتنے پیسے کھانے کے باوجود کچھ وزراء کے پیٹ اب تک بھرا نہیں ہیں۔ ان وزراء میں سے ایک ایسا یکتا چشم و چراغ وزیر ہے کہ موصوف اسمبلی کے ہر اجلاس میں کھڑا ہو کر اداکاری سے خود کو عوام کا خیرخواہ اور ہمدرد سمجھ کر سیلاب زدگان کے نام پر پیسہ بٹوارنے کا نیا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ اور یہ واویلا کر رہا ہے کہ فلان ملک نے بلوچستان کے سیلاب زدگان کیلئے اتنا امدادی پیسہ دیا ہے فلان نے اتنا دیا ہے۔ مگر شومی قسمت کہ وفاق کی جانب سے ابھی تک بلوچستان کے سیلاب زدگان کو کچھ دیا نہیں ہے۔ موصوف اسمبلی کے فلور پر گلا پھاڑ پھاڑ کر اسلئے رونا روتا ہے کہ محترم کو سیلاب زدگان کی امدادی پیسوں سے اب تک کھانے کو کچھ ملا نہیں ہے۔ انکو سیلاب زدگان سے کوئی ہمدردی نہیں صرف اپنے ہی پیٹ کا فکر ہے۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بلوچستان کے خزانے کا پیسہ کھا کھا کر خالی کر دیئے ہیں اور اب وہ سیلاب زدگان کے امدادی پیسے ہتھیانے کے چکر میں ہیں۔ بلوچستان ایک لاوارث صوبہ ہے۔ جو آتا ہے اسکی دولت کو مال غنیمت سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹتا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کو چلانے والا صوبہ خود اس وقت مالی مشکلات میں دو چار ہے اور مرکز سے خیرات کی بھیک مانگ رہی ہے۔ افسوس ہے کہ وفاق بلوچستان کی اپنی لوٹی ہوئی دولت کو کسک کسک کر بطور خیرات دیکر بلوچستان والوں پر بڑا احسان کر رہا ہے۔ اگر بلوچستان کے حکمرانوں میں قابلیت ہوتی تو بلوچستان کے وسائل کسی اور کے ہاتھوں نہ بکتا۔ اسکی دولت کو کوئی اور نہ لوٹتا؟ اگر بلوچستان کے حکمران اپنے عوام اور سر زمین سے مخلص ہوتے تو آج بلوچستان زبوں حالی اور پسماندگی کا شکار نہ ہوتا؟ اس وقت دنیا کے دیگر لوگ مریخ پر پر سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ دولت سے مالامال سر زمین کے باسی اپنے ہی سر زمین پر اجنبی کی طرح کسمپرسی اور کرب کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بلوچستان کی دولت سے دوسرے لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ اس امیر بلوچستان کے عوام دو وقت کی سوکھی روٹی کیلئے ترس رہے ہیں۔ بلوچستان کی پسماندگی اور زبوں حالی کا اصل زمہدار یہی نالائق حکمران ہے۔ وزیر اعلیٰ سے لیکر وزراء تک بلوچستان کی لوٹ کھسوٹ اور سودا بازی میں برابر کے شریک ہیں۔ جب بلوچستان کے اپنے حکمران خود چور اور چکھے ہوتے ہیں۔ اسکی دولت پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ تو پھر دوسروں سے کیا گلہ کریں۔ حقیقی لیڈر ہمیشہ ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے سوچتا ہے۔ عوام کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔ جبکہ ہمارے حکمران چوری اور کرپشن کو فرض سمجھتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے آج بلوچستان مالی مشکلات کا شکار ہے۔ خزانے کو چھانٹ چھانٹ کر خالی کر دیئے ہیں۔

اگر ہم دوسرے ممالک کے حکمرانوں کی بات کریں تو ہمارے حکمران اور انکے درمیان میں زمیں اور آسمان کا فرق نظر آتے ہیں۔ دنیا کی طاقتور سپر پاور امریکہ کے سابق صدر بارک اوبامہ امریکہ کے طاقتور صدر رہے ہیں۔ جب وہ صدارت کی منصب سے فارغ ہوا تو انکے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا کہ وہ اپنا ذاتی کاروبار کر سکے۔ آج کل وہ کیا کر رہا ہے۔ اور کس کنڈیشن میں ہے۔ کتنے بینک بیلنس بنائے ہیں۔ اور کتنے جائیداد۔ امریکی صدر ہونے کے بعد اس وقت وہ بطور لکچرار ملازمت کر رہا ہے۔ اور ایک کرایہ کے فلیٹ میں رہائش پزیر ہے۔ وہ اتنی طاقتور پوزیشن رہنے کے باوجود نہ اپنے لئے نہ اپنے بچوں کیلئے کچھ بنا سکا۔ اس کو کہتے ہیں عوامی لیڈر۔ کیونکہ لیڈر کا اصل سرمایہ عوام ہی ہوتے ہیں۔ اور عوام کی بدولت سے ایک عام سی آدمی لیڈر بن کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ لیڈر کو پیسہ دولت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ انکو عوام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تو ہمارے حکمران ہیں کہ انکو عوام کی ضرورت کم پیسوں کی ضرورت زیادہ ہیں۔ یہاں ایک وزیر کی جائیداد، بنگلے، بینک بیلنس اتنے ہیں کہ گنے نہیں جاتے ہیں۔ اس ملک میں کوئی ایک بار وزیر بن جائے پھر ساری زندگی کھاتا جائے انکا چوری کیا ہوا پیسہ ختم نہیں ہوتا۔ حیرانی کی بات ہے کہ یہ مرکزی چور اپنے کرپشن چھپانے کی خاطر ہر سال چوری کے پیسوں سے عمرہ اور حج پہ جاتے ہیں؟ تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ یہ ایماندار اور مخلص نمائندے ہیں۔

حرام، کرپشن، لوٹ مار اور غریبوں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والا کیسے ایماندار اور مخلص ہو سکتا ہے۔ حکمران ہمیشہ ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے سوچتے ہیں۔ مگر ہمارے حکمران سکون سے سوتے ہیں اور عوام مشکلات زندگی کی بے چینی میں جاگ رہے ہوتے ہیں۔ نااہلی کی حد ہوتی ہے۔ بلوچستان کی وزیر اعلیٰ اور کچھ وزراء ایسے بھی ہیں کہ انگریزی بولنا اور لکھنا تو دور کی بات ہے ان کو صحیح معنوں میں اردو تک نہیں آتے ہیں۔ تو پھر یہ دنیا کو کیا مسج دینا چاہتے ہیں کہ واقعی ہم بلوچستان کی حکمران نالائق ہیں۔ المیہ تو اس بات کی ہے کہ اس نااہل وزراء ہمارے لئے قانون بناتے ہیں اور اسمبلیوں میں عوام کی زندگی کے فیصلہ کرتے ہیں۔ جبکہ یہ نااہل وزراء انگریزی میں اپنے چھٹی کی درخواست لکھ نہیں سکتے ہیں۔ تو پھر یہ عوام کی خوشحالی کیلئے منصوبے کیسے بنا سکتے ہیں۔

افسوس ہے کہ ان نااہل کے ماتحت PHDS والے، انجینئرز اور ڈاکٹرز کام کرتے نظر آتے ہیں۔ تو پھر اس طرز نظام میں ملک اور قوم کی تقدیر کیسے بدل سکتی ہے۔ ایسے نااہل حکمران سے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے کیا توقع رکھیں۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور وزراء اتنا نااہل ہیں کہ باہر ملکوں سے آنے والے کسی ایلچی نمائندہ کے ساتھ انگریزی میں بات نہیں کر سکتے ہیں انکے ترجمانی چیف سیکرٹری یا سیکریٹری کرتے ہیں۔ تو پھر یہ ملک اور عوام کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں